رابعہ فاطمہ
برق رفتاری سے موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب دنیا اس وقت ایک شدید ماحولیاتی بحران سے گزر رہی ہے، جو نہ صرف انسانی زندگی، بلکہ کرۂ ارض پر موجود تمام جان داروں کے لیے بھی ایک خطرہ بن چکا ہے۔ صنعتی ترقی، غیر متوازن زرعی طریقے، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور فوسل فیولز (زمین میں دَبا ایندھن) کے بے تحاشا استعمال نے زمین کے قدرتی توازن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
جس کی وجہ سےکہیں تباہ کُن خشک سالی ہے، تو کہیں غیر معمولی بارشیں، کہیں موسمِ گرما کا دورانیہ بڑھ رہا ہے، تو کہیں موسمِ سرما میں سردی کی شدّت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان تمام ماحولیاتی تبدیلیوں سےجہاں انسانی سماج پر نہایت تباہ کن اثرات مرتّب ہورہے ہیں، وہیں جنگلوں، صحراؤں، دریاؤں اور سمندروں میں موجود دیگر فطری حیات بھی بُری طرح متاثر ہورہی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی 2023ءکی ایک رپورٹ کے مطابق، زمین کا درجۂ حرارت صنعتی انقلاب کے بعد سے 1.2ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، اگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا، تو 2050ءتک یہ 2ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرجائے گا، جس کے نتیجے میں شدید ماحولیاتی تباہی واقع ہوسکتی ہے۔
افریقا، جنوبی ایشیا، اور بحرالکاہل کے جزائر پر مشتمل کئی علاقے اس بحران سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ اقوام ِمتحدہ ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2050ءتک دنیا کی تقریباً 1.2ارب آبادی، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوسکتی ہے۔اس مسئلے کی سنگینی کم کرنے کے لیے ’’پیرس معاہدہ2015ء‘‘اور اقوام متحدہ کے ’’پائے دار ترقیاتی اہداف‘‘ جیسے اقدامات کیے گئے ہیں، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ تاحال ان پر عمل درآمد کی رفتار انتہائی سُست ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک پر مرتّب ہورہے ہیں، جہاں بنیادی ڈھانچے کی کم زوری، اقتصادی مسائل اور کم زور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اس تبدیلی کے نتائج ہوش رُبا ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان میں 2022ءکے سیلاب نے مُلک کے ایک تہائی حصّے کو شدید متاثر کیا، جس سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، تو زرعی پیداوار بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
اسی طرح، افریقی مُمالک جیسے صومالیہ اور سوڈان میں بڑھتی ہوئی خشک سالی، خوراک کی قلّت اور قحط کو جنم دے رہی ہے، جب کہ مالدیپ سمیت بحرالکاہل کے کئی جزائر کے لیے، سمندری سطح میں اضافے کے سبب اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اسلام، جو کہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، ماحولیاتی توازن، فطرت کے احترام، اور قدرتی وسائل کے منصفانہ استعمال پر زور دیتا ہے، لہٰذا اگر اسلامی تعلیمات کو جدید ماحولیاتی پالیسیوں میں شامل کیا جائے، تو موجودہ ماحولیاتی بحران پر قابو پاکر ایک پائے دار طرزِ زندگی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
اسلام میں فطرت اور ماحولیاتی تحفّظ کا تصوّر
اسلامی تعلیمات کے مطابق، زمین اور فطرت اللہ کی نشانیوں میں شامل ہیں اور ان کی حفاظت کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور زمین میں صاحبانِ ایقان (یعنی کامل یقین والوں) کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ (سورۃ الذاریات ، آیت نمبر20)۔یہ آیت اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ زمین اور اس کے تمام وسائل ایک منظم اور متوازن نظام کے تحت چل رہے ہیں، اور انسان کا فرض ہے کہ وہ اس توازن کو برقرار رکھے۔
جدید سائنسی تحقیق بھی اس نکتے کی تائید کرتی ہے کہ زمین کا ہر نظام آپس میں مربوط ہے، اور اگر کسی ایک عنصر میں خلل ڈالا جائے، تو پوری زمین کے ماحولیاتی نظام پر اُس کے منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ دینِ اسلام میں انسان کو زمین کا قائم مقام، یعنی زمین کا نگہبان اور محافظ بنایا گیا ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔’’وہی ہے، جس نے تمہیں زمین میں قائم مقام بنایا، پس جو کفر کرے گا، اس کے کفر کا وبال اُسی پر ہوگا، اور کافروں کا کفر اُن کے ربّ کے ہاں ناراضی کے سوا اور کچھ نہیں زیادہ کرتا۔‘‘ (سورۃ الفاطر، آیت نمبر39)۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان زمین کا اصل مالک نہیں، بلکہ اللہ کا نائب ہے، اور اُسے اس زمین کو بہتر بنانے اور اس کی حفاظت کی ذمّے داری سونپی گئی ہے۔ جدید ماحولیاتی پالیسیوں کا بھی یہی نظریہ ہے کہ انسان کو قدرتی وسائل کا غیر ضروری استعمال کرنے کے بجائے انہیں بہتر طریقے سے محفوظ بنانا چاہیے، تاکہ آنے والی نسلیں بھی اُن سے مستفید ہو سکیں۔
ماحولیاتی بحران اور اسلامی اصول
اسلامی تعلیمات قدرتی وسائل کے متوازن اور محتاط استعمال پر زور دیتی ہیں، تاکہ فطرت کے توازن کو برقرار رکھا جا سکے اور زمین کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔ قرآن میں اسراف اور فضول خرچی کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔’’اور کھاؤ اور پیو، اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ الاعراف ، آیت نمبر 31)۔
یہ اصول جدید ماحولیاتی پالیسیوں سے مطابقت رکھتے ہیں، جہاں پائے دار ترقی پر زور دیا جا رہا ہے۔ آج دنیا میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، اور کئی ممالک میں پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں پانی کے دانش مندانہ استعمال کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔’’بہتے دریا کے کنارے بھی وضو کرو، تو پانی ضائع نہ کرو۔‘‘ (ابنِ ماجہ)۔
اسی طرح، زمین کے درجۂ حرارت کو کم رکھنے اور حیاتیاتی تنوّع برقرار رکھنے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو، اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اگر وہ اُسے لگا سکتا ہو، تو ضرور لگا دے۔‘‘ (مسند احمد)۔
جدید سائنسی تحقیق بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بڑے پیمانے پر شجرکاری کے ذریعے زمین کے درجۂ حرارت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق، اگر دنیا بھر میں درختوں کی تعداد 20فی صد بڑھا دی جائے، تو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں نمایاں کمی آسکتی ہے، جو زمین کے درجۂ حرارت کو کم کرنے میں مدد دے گی۔
اسلامی تاریخ میں ماحولیاتی تحفّظ کی مثالیں
اسلامی تاریخ میں ماحولیاتی تحفّظ کے بے شمار شواہد موجود ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں فطرت کی حفاظت کو خصوصی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ خلافتِ عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کے ادَوار میں ماحولیاتی تحفّظ کے لیے کئی قوانین اور عملی اقدامات متعارف کروائے گئے۔ عباسی خلافت کے دَور میں، خاص طور پر ہارون الرشید اور مامون الرشید کے ادوار میں، زراعت، آب پاشی، اور نہری نظام کی ترقی پر خصوصی توجّہ دی گئی۔ بغداد میں نہری نظام کو منظّم کیا گیا، تاکہ پانی کے زیاں کو کم کیا جاسکے اور زمین کی زرخیزی برقرار رکھی جاسکے۔
مورخین کے مطابق، عباسی حکم رانوں نے زمین کی بحالی کے اصولوں کو اپنایا اور کاشت کاری کے ایسے طریقے متعارف کروائے، جن سے زمین کی زرخیزی متاثر نہ ہو۔ خلافتِ عثمانیہ کے دَور میں’’وقف جنگلات‘‘ کا تصوّر متعارف کروایا گیا، جس کے تحت مخصوص علاقے درختوں اور جنگلی حیات کے تحفّظ کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ عثمانی حکم رانوں نے ماحولیاتی تحفّظ کے حوالے سے سخت قوانین نافذ کیے، جن کے تحت درختوں کی غیر ضروری کٹائی ممنوع تھی۔
اگر کوئی شخص بلا ضرورت درخت کاٹتا، تو اُس پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ عثمانی سلطنت میں شہروں کے اندر اور ان کے اطراف باغات اور سبزہ زار قائم کرنے کی روایت موجود تھی تاکہ ماحولیاتی آلودگی کم کرکے شہریوں کو صاف ستھری فضا مہیّا کی جاسکے۔ استنبول کے تاریخی باغات، جیسے کہ ’’غلہانے پارک‘‘ اور ’’ییلدز پارک‘‘ اس دور کی پائے دار ماحولیاتی پالیسیوں کی عمدہ مثال ہیں۔
مغلیہ سلطنت میں بھی ماحول کے تحفّظ کو اوّلین ترجیح دی گئی۔ مغل بادشاہوں نے باغات کی تعمیر اور پانی کے ذخائر کی بہتری پر خصوصی توجہ دی۔ مشہور مغل بادشاہ اکبر نے زراعت کے فروغ کے لیے بڑے پیمانے پر نہری نظام قائم کیا، جب کہ شاہ جہان کے دَور میں مغل باغات کی روایت کو مزید وسعت دی گئی۔
لاہور کا شالامار باغ، دہلی کا لودھی گارڈن اور کشمیر کے مغل باغات اسی روایت کی یادگاریں ہیں۔ مغل بادشاہوں نے نہ صرف شاہی باغات تعمیر کروائے، بلکہ شہروں میں درختوں اور سبزہ زاروں کی افزائش پر بھی زور دیا، تاکہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھا جاسکے۔ اسی طرح اندلس، جو مسلم اسپین کا مرکز تھا، زرعی ترقی اور آب پاشی کے جدید نظام متعارف کروائے گئے، جن سے پورا یورپ مستفید ہوا۔
قرطبہ اور غرناطہ میں ایسے آبی نظام بنائے گئے، جو نہ صرف زراعت کے لیے فائدہ مند تھے، بلکہ ماحولیاتی تحفّظ میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اُس دَور کے مسلمان ماہرینِ زراعت نے اس بات پر تحقیق کی کہ کون سے درخت اور پودے زمین کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، اور پھر انہوں نے ایسی تیکنیکس ایجاد کیں، جن سے زمین کی زرخیزی برقرار رہے۔
مسلم دنیا میں ماحولیاتی تحفظ کے جدید اقدامات
موجودہ دَور میں بھی کئی مسلم ممالک ماحولیاتی تحفّظ کے لیے عملی اقدامات کررہے ہیں، تاکہ ماحولیاتی بحران کم کیا جاسکے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق فطرت کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے۔ سعودی عرب میں’’گرین مڈل ایسٹ انیشی ایٹو‘‘ کے تحت لاکھوں درخت لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، تاکہ کاربن کے اخراج کو کم کرکے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔
مذکورہ منصوبے کے تحت، 2030ء تک 50ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جو کہ مشرقِ وسطیٰ میں ماحولیاتی بحالی کے سب سے بڑے منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا کی جانے والی توانائی کے منصوبوں پر بھی کام کیا ہے، تاکہ متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دے کر تیل پر انحصار کم کیا جا سکے۔
پاکستان میں’’ٹین بلین ٹری سونامی‘‘ جیسے منصوبے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ اس ضمن میں ملک بھر میں درخت لگانے اور جنگلات کے رقبے میں اضافہ کرنے پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس مہم کے تحت، گزشتہ چند برسوں میں ایک ارب سے زائد درخت لگائے جا چکے ہیں، اور مزید درخت لگانے کے لیے عوامی سطح پر آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں ’’کلین اینڈ گرین پاکستان‘‘ مہم کے ذریعے شہروں میں صفائی کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے اور کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل کرنے کے منصوبے متعارف کروائے جا رہے ہیں۔
ترکیہ میں’’زیرو ویسٹ پراجیکٹ‘‘ کے ذریعے کچرا کم کرنے، ری سائیکلنگ کو فروغ دینے اور شہروں میں سبز مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے مؤثر پالیسیز نافذ کی جا رہی ہیں۔ یہ منصوبہ خاص طور پر شہروں میں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، جس کے تحت سرکاری دفاتر، اسکولوں، اور عوامی مقامات پر کچرا تلف کرنےکے انتظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح متحدہ عرب امارات نے بھی ماحولیاتی تحفظ میں اہم پیش رفت کی ہے۔ دبئی اور ابوظبی جیسے شہروں میں ’’اسمارٹ سسٹین ایبل سٹی‘‘ (Smart Sustainable City) کے ماڈلز پر کام کیا جا رہا ہے، جہاں عمارتیں، ٹرانسپورٹ، اور توانائی کے ذرائع، ماحول دوست طریقوں پر مبنی ہیں۔
2023ء میں، متحدہ عرب امارات نے ’’COP28‘‘ کی میزبانی کی، جو کہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر عالمی سطح کی سب سے بڑی کانفرنس ہے۔ اس کانفرنس میں قابلِ تجدید توانائی، ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے، اور عالمی ماحولیاتی پالیسیوں کے نفاذ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔علاوہ ازیں، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بھی ماحولیاتی تحفّظ کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں۔
پام آئل کی پیداوار میں سرِفہرست ممالک میں شامل ملک، انڈونیشیا نے جنگلات کے کٹاؤ کو روکنے کے لیے نئی پالیسیز متعارف کروائی ہیں، تاکہ حیاتیاتی تنوّع کو محفوظ رکھا جا سکے، جب کہ ملائیشیا میں ’’گرین ٹیکنالوجی ماسٹر پلان‘‘کے تحت قابلِ تجدید توانائی، ماحولیاتی تحفّظ، اور کم کاربن والی صنعتوں کو فروغ دینے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اگرچہ، آج ماحولیاتی بحران ایک سنگین چیلنج ہے، مگر اس کا حل اسلامی تعلیمات میں موجود ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکم رانوں اور اسکالرز نے ہمیشہ فطرت کے احترام اور ماحول کی حفاظت کو اہمیت دی ہے۔ آج کے جدید مسلم ممالک بھی ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں، جن میں جنگلات کی بحالی، توانائی کے متبادل ذرائع، اور کچرے کے انتظام جیسے منصوبے شامل ہیں۔
اگر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں وسائل کا متوازن استعمال کریں، زمین کی حفاظت کو اپنی دینی اور اخلاقی ذمّے داری سمجھیں، توانائی کے متبادل ذرائع اپنائیں، اور جدید سائنسی تحقیق کو اسلامی اصولوں کے ساتھ جوڑ کر عملی اقدامات کریں، تو ہم نہ صرف اپنے ماحول کو محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک پائےدار اور بہتر دنیا تشکیل دے سکتے ہیں۔ مسلم ممالک کو اس مسئلے پر عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ نہ صرف قدرتی وسائل محفوظ رہیں بلکہ زمین کا فطری توازن بھی برقرار رہے۔