• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید الفطر اعمال کے جائزے انعاماتِ ربانی اور عزمِ نو کا دن

مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ

رمضان المبارک جو برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ تھا، ہم سے رخصت ہوا۔ کتنے نیک لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے واقعی اس رمضان میں تلاوت، نماز، ذکر اور عبادات میں وقت گزار کر اپنے گناہوں کی مغفرت کرالی ہوگی، اپنے آپ کو گناہوں کی کثافتوں سے پاک و صاف کرلیا ہوگا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا اور اپنے لئے جنت کا داخلہ حاصل کرلیا ہوگا اور کتنے بدنصیب ایسے بھی ہوں گے کہ رمضان المبارک کا مہینہ اپنے لئے بھاری تصور کرتے ہوں گے، دن کو روزہ خوری ،لہو و لعب اور کھیل تماشوں میں گزارا ہوگا اور راتوں کو اٹھ کر روٹھے رب کو منانے کے بجائے فلم بینی، شراب نوشی اور دوسرے گناہوں میں مصروف رہے ہوں گے اور انہیں بھول کر بھی توجہ کرنے کی فرصت نہیں ملی ہوگی۔ 

بہرحال! رمضان المبارک گزر گیا اور اب عیدالفطر روزے داروں کے انعام و اکرام کا دن ہے۔ جن بھائیوں نے رمضان کے روزے رکھے، قرآن کریم کی تلاوت، ذکر، نفل نمازوں اور دعاؤں میں لگے رہے، ان سے تو گزارش ہے کہ رمضان کے مہینے کو پورے سال کے لئے آپ ایک نمونہ سمجھیں، یعنی جس طرح رمضان کا دستور العمل آپ نے مرتب کیا تھا اور اسی پر عمل کیا تھا، اسی طرح پوری زندگی گزارنے کا تہیہ کریں اور اپنے آپ کو ہر قسم کی فضول گوئی، فضول کاموں میں وقت گزاری سے اجتناب کریں اور جن لوگوں نے یہ وقت غفلت اور لاپروائی میں گزارا، ان سے بھی گزارش ہے کہ اپنے روٹھے رب کو منالیں اور اپنی سابقہ کوتاہیوں اور بے عملیوں سے توبہ کرکے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرلیں۔

اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا ہے کہ ہمارے بہت سے بھائی رمضان میں تو خوب عبادات اور اعمال صالحہ کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن جوں ہی چاند نظر آیا پھر وہی پرانی ڈگر پر چل پڑتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے، اس لئے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ عبادات اور اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں، بلکہ اپنی خواہشات کی تکمیل، ریاکاری اور دکھاوے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ 

ذہن میں رکھنا چاہئے کہ چاند رات بہت ہی اہمیت اور فضیلت کی حامل ہے، جیسا کہ آپ ﷺکا ارشاد ہے کہ: اللہ تبارک و تعالیٰ رمضان میں روزانہ دس لاکھ لوگوں کو جہنم سے خلاصی اور رہائی نصیب فرماتے ہیں اور چاند رات کو پورے مہینے کے برابر جتنے لوگوں کو آزاد کیا تھا، ان کی مقدار صرف اس ایک رات میں جہنم سے آزاد فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی جہنم سے آزادی وخلاصی نصیب فرمادیں گے۔ 

اب عید کے اعمال کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمایئے، جن سے ہمیں یہ پیغام ملے گا کہ ہمیں ان اوقات میں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: اپنی عیدوں کو تکبیر کے ساتھ مزیّن کرو، یعنی عید کو جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے تکبیرات کی کثرت کیا کرو۔ حضرت سعد بن اوس انصاریؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے فرشتے راستے میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ ندا دیتے ہیں کہ اے مسلمانو! اپنے رب کریم کی طرف بڑھو، جس نے نیک اعمال کی توفیق دے کر احسان فرمایا اور پھر اس پر بے پناہ اجر عطا فرمایا۔ تمہیں راتوں کو قیام کا حکم دیا گیا تو تم نے قیام کیا اور تمہیں دن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے رکھے۔ 

تم نے اپنے رب کی اطاعت کی اب اپنا اجر اور انعام وصول کرو، جب مسلمان عید کی نماز پڑھتے ہیں تو ایک منادی ندا دیتا ہے کہ سنو! بے شک، تمہارے رب نے تمہاری مغفرت فرمادی، اب تم کامیاب اور بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ یہ انعام ملنے کا دن ہے اور آسمان میں عیدالفطر کو انعام کے دن سے موسوم کیا جاتا ہے۔ (الترغیب والترہیب)

حضوراکرم ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ﷺ عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز تناول فرمالیا کرتے تھے۔ عید کے مسنون اعمال یہ ہیں: مسواک کرنا،غسل کرنا، اگر میسر ہوں تو نئے کپڑے پہننا اور اگر نئے موجود نہیں ہیں تو صاف ستھرا لباس زیب تن کرنا، عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے تکبیرات کی کثرت کرنا وغیرہ کو علماء نے ذکر کیا ہے۔

ایک خاص بات یہ عرض کرنی ہے کہ عید کے دن جس طرح ہم اپنے زندہ عزیزوں، رشتے داروں اور دوست احباب کو عید کی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں، اسی طرح اس دن قبرستان جاکر اپنے فوت شدہ عزیزوں اور رشتے داروں کو ایصال ثواب کرکے انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جہاں ان کی روح خوش ہوگی، وہاں ہمیں بھی اپنے مرنے والوں کی قبر کو دیکھ کر آخرت کی فکر ہوگی۔ آخرت کی تیاری کرنے میں سہولت میسر ہوگی۔ اور دنیا داروں کی خرمستیوں جیسی خرافات سے بچنے کی توفیق ہوگی۔

اسپیشل ایڈیشن سے مزید