ماضی کی طرح اس سال بھی متعلقہ محکمےماہ صیام کے دوران روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول کرنےمیں ناکام رہےہیںاور گراں فروشوں نے لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔وزیراعظم شہباز شریف نے یہ مبارک مہینہ شروع ہوتے ہی اعلیٰ سطحی اجلاس میں چینی کی قیمتیں واپس سابقہ پوزیشن پر لانے کے واضح حکامات جاری کیے تھے جنہیں منافع خور مافیا نے ہوا میں اڑا دیااور اس وقت مارکیٹ میں چینی 170تا180روپے فی کلو گرام فروخت ہورہی ہےاورکوئی پوچھنے والا نہیں۔یکم رمضان کو اس کے نرخ165روپے فی کلو گرام تھے ، وزیراعظم کے سخت احکامات پر عمل درآمد کی بجائےاس میںمزید 15روپے کا اضافہ کردیا گیا اورمتعلقہ محکموں کے اہل کار حکومت کو سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہے۔یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اکتوبر2024میں چینی132روپے فی کلو گرام فروخت ہورہی تھی جبکہ ادارہ شماریات حکومت پاکستان کے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اس وقت180روپےکلو تک فروخت کیے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔حکومتی حلقے بارہا اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ ملک میںچینی کا وافرذخیرہ موجود ہے۔ جہاں یہ امر باعث مسرت ہے کہ پچھلے سیزن میں پاکستان نے 6.84ملین ٹن اضافی چینی پیدا کی تھی اور اس سال اس کی پیداوارگزشتہ سال سے بھی زیادہ ہوئی ہے،اس کے برعکس ذخیرہ اندوزوں نے ان پانچ مہینوں میں اربوں نہیں تو کروڑوں روپے ضرور کمالیے لیکن ابھی تک کسی کے خلاف قانونی کارروائی کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ملک میں چینی کا بحران کیونکر پیدا ہوا، اس کی بلا امتیازانکوائری ہونی چاہئے،اس دھندے میں متعلقہ محکموں کےبدعنوان اہل کاروں کا ملوث ہوناخارج از امکان نہیں،جنہیںقانون کے کٹہرے میں لانے جبکہ اصولی طور پر چینی کے نرخ اصل شکل میں132روپے فی کلو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔