• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکوں کے بارے میں تو زمانہ طالب علمی سے ہی پڑھتے آئے تھے پر جب رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں حسن آرا سے کہلوایا ' میاں آزاد ! ترکی میں جائیے روس کے خلاف ان کے 'جہاد ' میں شریک ہو جائیں، لوٹیں گے تو شربت وصال پی سکیں گے۔ تب سے حواس پر ایک خواب نگر چھا گیا مگر آپ یقین کیجئے اس نگر کی زیارت ڈاکٹر اے بی اشرف کی وجہ سے ممکن ہوئی وہ اردو چیئر پر88 کے اوائل میں سلیکٹ ہوکے انقرہ یونیورسٹی پہنچے تھے ۔ضیاء الحق کا دور تھا ، استاد محترم کو تقرر کا خط مل چکا تھا ٹکٹ ان کی جیب میں تھا ایک الوداعی تقریب میں انہوں نے کہہ دیا ہمارے ملک میں آئینی بحران بڑھ رہا ہے۔صبح کے اخبارات میں یہ بیان چھپا تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر خواجہ امتیازعلی نے ایک نیم خفیہ خط مجھے تھمایا جس میں انہیں ہدایت کی گئی کہ ان کا تقرر منسوخ کرنے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے وہ ملتان میں رہ کر فیصلے کا انتظار کریں ۔میں اشرف صاحب سے ملا تو انہوں نے کہا تم یہ سمجھو کہ تم مجھ سے ملے ہی نہیں ، سو میں نے وائس چانسلر سے کہا کہ وہ میاں آزاد کی طرح ترکی جا چکے ہیں ۔ اب اشرف صاحب جب وہاں پہنچ گئے تو ٹیلی فون پر وہاں کی سو فی صد شرح خواندگی ،حسن و جمال اور پاکستانیوں سے والہانہ محبت کا ذکر کیا کرتے اور اشتیاق بڑھایا کرتے پھر 18 اگست کی رات ان کا سرشار لہجے میں فون آیا جس کے آخر میں پوچھا ’’اوہ بھلا پورا سڑ گیا یا ول کتھاوں نکل آسی ؟1995 کے اوائل میں انقرہ اردو چیئر دوبارہ مشتہر ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کے اس نگر میں داخل کر دیا تب تک میں ترکی اردو بول چال کی دو تین کتابیں اور تین چار سفرنامے پڑھ چکا تھا مگر وہاں پہنچ کے میری نظریں سچ مچ چندھیا گئیں ۔ مصطفی کمال پاشا ویسے بھی ہمارا ہیرو تھا ، پھر منٹو کا افسانہ ماتمی جلسہ میں پڑھ چکا تھا ۔ تحریک خلافت کی ناکامی کے اسباب سے بھی غافل نہ تھا تاہم وہاں پڑھنے سننے اور سیکھنے کو بہت کچھ تھا ۔رسم الخط کی تبدیلی سے عربی اور فارسی کے کئی مانوس الفاظ برف کے نیچے دبے ہوئے ملتے ان کو پہچان کر بہت خوشی ہوتی تاہم دو تین باتوں سے صدمہ یا تعجب بھی ہوا جیسے تمام اساتذہ ایک کمرے میں بیٹھتے سوائے صدر شعبہ ڈاکٹر شوکت بولو کے ۔اشرف صاحب ، گلسرین ، سلمی بینلی ، جلال ، آسمان کے ساتھ ایک کرسی میز میرے لئے رکھ دی گئی تھی۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ اپنے کرسی میز اور کمرے کو خود صاف کرنا اور صاف رکھنا ہے کہ یہاں نائب قاصد نہیں ہوتا اور نہ کلرک خود کمپیوٹر پر ٹائپ کرنا سیکھیں مجھے پڑھانے کیلئے چار کورس دئیے گئے ایک تو کنشما یعنی بول چال ، ایک حکایت یا افسانوی ادب تیسرا اردو کی ادبی تحریکیں اور چوتھا اردو کا کلاسیکی متن ۔ میں نے جب ان سے کہا کہ کورس آئوٹ لائن میں بدلنا چاہتا ہوں بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹنگ بلوائیے انہوں نے کہا یہ (نحوست ) ہمارے ہاں نہیں، استاد کو اختیار ہے کہ اپنے کورس کا خاکہ ہی بدل دے بس وقت پر آئیے کلاس ٹائم ٹیبل کے مطابق لیجئے ، سمسٹر سسٹم کے تحت نتیجہ مرتب کیجئے ۔ کسی اور مضمون کے استاد نے انگریزی میں مجھے کہا کہ میں بھی آپ کی طرح کمیونسٹ ہوں تو میرے چھکے چھوٹ گئے۔ میں نے کہا جی مجھے پراگریسو یا لبرل خیال کر لیجئے پاکستان میں بطور کمیونسٹ کوئی اپنا تعارف نہیں کرا سکتا ۔انہی دنوں پتا چلا کہ وائس چانسلر کا الیکشن ہوگا کوئی بھی اسسٹنٹ پروفیسر امیدوار ہو سکتا ہے ووٹنگ کے بعد پہلے تین افراد کا پینل بنے گا وہاں ہائر ایجوکیسن کمیشن کی طرح کا ایک ادارہ یوکسک ہے جو ان امیدواروں کے کیرئیر اورریسرچ وغیرہ کے نمبر لگا کے صدر مملکت کو پینل بھیجے گا جو فیصلہ کرے گا۔یہ سن کر میں نے اپنی عادت کے مطابق اپوزیشن کا امیدوار تلاش کرنا شروع کیا پھر ایک دن یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ہماری فیکلٹی کی ڈین کے کمرے میں استادوں کو بلایا اور 'پیار 'سے بتایا کہ آپ مجھے ووٹ دیں یا نہ دیں میرا نام پینل میں آگیا تو صدر سلیمان ڈیمرئیل میرے ذاتی دوست ہیں وہ میرا ہی تقرر کریں گے پھر باغی مجھ سے مسکراہٹ کی توقع نہ رکھیں ۔اشرف صاحب نے میری طرف سے بھی یقین دلایا کہ ہم آپ جیسے بیدار مغزکی موجودگی میں غیر کا تصور کر ہی نہیں سکتے ۔وہاں اور بھی کئی خوش گوار تجربات ہوئے وہاں جب کسی دکاندار سے کسی شے کا نام لے کر پوچھا جاتا ’’ وار ما‘‘؟تو وہ سر سے اشارہ نفی کا کرتا مگر کہتا ایوت ( جی ہاں ) سنیما ہال میں بیٹھے افراد اپنے جذبات کے اظہار میں اتنے گرم جوش تھے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ سکرین پر دیکھا جائے یا تماشائیوں کے مابین گرم جوشی کے مناظر پر ہی اکتفا کر لیا جائے ۔ جگہ جگہ اردو بازاری کے بورڈ دیکھ کر خوشی ہوئی بعد میں پتہ چلا جیسے فوجی بھائیوں کیلئے ہم نے سی ایس ڈی سٹور بنائے ہیں یہ وہی ہیں، ایسےہی مسجد اور جامعی کا فرق معلوم ہوا عیدین کی نمازیں اور نماز جمعہ پورے انقرہ میں چند منتخب مسجدوں میں ہوتیں ہر کوچے میں جامعی بنانے کی اجازت نہیں ۔ترک خ نہیں بولتے غ بھی نہیں مگر تلاوت میں یہ حروف ادا ہوتے نماز جمعہ میں مسنون خطبے سے پہلے ترکی زبان میں صحت و صفائی اور سماجی مسائل پر ترکی زبان میں خطبہ دیا جاتا ایک مر تبہ خطبات بہاولپور ' اور ڈاکٹر حمیداللہ کا حوالہ آیا تو بہت خوشی ہوئی ۔کچھ کچھ باتوں پر میری عیب جو نظر پڑتی تو اشرف صاحب میری اصلاح کرتے وہ اس سرزمین سے وہاں کے لوگوں سے موسم سے پھولوں سے ہی نہیں کانٹوں سے بھی پیار کرتے تھے کہتے تھے تمہارے نصیب میں پاکستان میں گھٹ گھٹ کے جینا اور مرنا ہے مجھے دیکھو میں جینا چاہتا ہوں لیکن اگر کبھی مجھے مرنا پڑا تو میں ترکی میں ہی مروں گا ۔انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا وہ پاکستان میں کچھ ایام کے لئے آتے تھے مگر ترکی کی شہریت اختیار کر لی تھی اب وہ ایک تابوت میں بند پاکستان میں آئے ہیں۔

تازہ ترین