• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نائیجریا مغربی افریقہ کی اُبھرتی ہوئی معیشت ہے جسے’’ افریقہ کا َجن‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ 174ملین انسانوں کا مسکن نائیجریا براعظم افریقہ کا سب سے گنجان آباد جبکہ دنیا کا ساتواں گنجان ترین ملک ہے۔افریقہ کا نام آتے ہی غربت و پسماندگی کا تاثر ابھرنے لگتا ہے لیکن نائیجریا کا شمار امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔500بلین ڈالر کے ساتھ نائیجریا کا شمار دنیا کی 26ویں بڑی معیشت کے طور پر ہوتا ہے۔یہاں بھی سامراجی تسلط کے دور میں غربت و تنگدستی کا راج تھا اور انسانوں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی مگر 1960ء میں آزادی کے بعد تیل کے ذخائر دریافت ہوئے تو سیاہ فام باشندوں کی تقدیر بدل گئی۔
اب نائیجریا تیل کی پیداوار کے لحاظ سے 12واں جبکہ تیل کی برآمد کے لحاظ سے 8واں بڑا ملک ہے۔چونکہ یہاں مختلف قبائل کے افراد آباد ہیں،قومیت و لسانیت کی تفاوت بہت ہے ،اس لئے وسائل پر قبضہ جمانے والی عا لمی طاقتوں کو خانہ جنگی کرانے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور کئی عشروں تک مغربی ممالک یہاں قتل و غارت گری سے لطف اندوز ہوتے رہے،پھر اپنے من پسند جرنیلوں کے ذریعے کٹھ پتلی حکومتیں چلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔1999ء کے انتخابات کے ذریعے اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل ہوا مگر نوخیز جمہوریت کو عالمی قوتوں کی سازشوں کا سامنا ہے۔ویسے تو یہاں کئی مذاہب کے لوگ آباد ہیں مگر اکثریت عیسائیت اور اسلام کے پیروکاروں کی ہے۔جنوبی اور وسطی حصوں میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جبکہ شمالی اور جنوب مغربی حصوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔لسانی امتیاز اور قبائلی و مذہبی تفاوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کم از کم 500مختلف زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔نسل در نسل غلامی ،طویل خانہ جنگی اور پھر فوجی حکومتوں نے نائیجریا کے سماج پربہت سے اثرات مرتب کئے ہیں مثلاً یہاں انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت یا وقعت نہیں۔خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا جاتا ہے اور یہ کسی ایک مذہب یا گروہ کا مائنڈ سیٹ نہیں بلکہ سب کا عمومی مزاج ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہاں ایک شدت پسند تنظیم ’’بوکوحرام‘‘ نے 200سے زائد طالبات کو اغواء کر لیا تو وہاں کوئی ہلچل پیدا نہ ہوئی ،یہاں تک کہ اسلام کو رگیدنے والوں نے اس خبر کو ٹوسٹ کر کے ایک خاص رنگ دیا اور پھر سب عالمی قوتیں میدان میںکود پڑیں ۔’’بوکو حرام‘‘ ایک مسلح گروہ ہے جس کا مطلب ہے مغربی تعلیم حرام ہے۔مغربی تعلیم سے متعلق وہاں کے مسلمان اسی کشمکش کا شکار ہیں جس طرح کی الجھن کا سامنا برصغیر کے مسلمانوں کوقیام پاکستان سے پہلے تھا۔اسی اثناء میں محمد یوسف نامی ایک مدرس نے میدوگری کے علاقے میں ایک مسجد اور مدرسے کی بنیاد رکھی جس کا نام ہی یہی رکھا گیا’’بوکوحرام‘‘ یعنی مغربی تعلیم حرام۔شروع میں تو سلسلہ دینی تعلیم تک محدود تھا مگر رفتہ رفتہ یہ تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی۔یہ کم و بیش وہی صورتحال تھی جو ہمیں چند برس قبل اسلام آباد میں لال مسجد کی صورت میں پیش آئی اور اس موقع پر نائیجیریا کی حکومت نے بھی وہی غلطی کی جو ہماری حکومت نے اسلام آباد میں کی۔
ہمارا خیال تھا کہ غازی عبدالرشید کو ختم کرنے سے شدت پسندی کا جن واپس بوتل میں بند ہو جائے گا مگر ان کی موت سے تحریک طالبان پاکستان جیسے مسلح گروہ مزید مضبوط ہو گئے۔اس طرح میدوگری میں طویل فوجی آپریشن کے بعد وہاں کی ’’لال مسجد‘‘ کو فتح کر لیا گیا اور محمد یوسف کو پولیس حراست میں قتل کر دیا گیا۔محمد یوسف کی موت کے بعد بوکو حرام کی قیادت ابوبکر شیکائو کے ہاتھ میں آ گئی،شدت پسند پھر سے منظم ہونا شروع ہو گئے اور فوجی چھائونیوں ،سرکاری دفاتر اور یہاں تک کہ مساجد پر بھی حملے کئے گئے۔2010ء میں بوکوحرام نے ایک سرکاری جیل پر حملہ کر کے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو رہا کرا لیا،بالکل ایسے جیسے ہمارے ہاں ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑی گئی۔ابو بکر شیکائو اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت ایک مافیا کی ہے جو اسلام سے مکمل طور پر بے بہرہ ہیں لیکن یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے عقائد کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔دین سے متعلق ان کے فہم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے وہ معصوم لڑکیوں کو اغواء کرکے انہیں زبردستی اسلام قبول کرا رہے ہیں اور مال غنیمت کے طور پر فروخت کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ان بچیوں کو اغواء ہوئے ڈیڑھ ماہ ہو چلا ہے ،فرانس،برطانیہ اور امریکہ کے تفتیشی ماہرین کئی ہفتوں سے انہیں تلاش کر رہے ہیں،چینی سیٹلائٹ انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے مگر ان لڑکیوں کا کوئی سراغ نہیں مل پا رہا ۔میرے ایک دوست جو کاروبار کے سلسلہ میں وہاں آتے جاتے رہتے ہیں ،ان کے مطابق جس طرح ہمارے ہاں دہشتگردی کے پیچھے امریکہ کی پشت پناہی کے خدشات ہیں ،اسی طرح وہاں بھی مقامی باشندوں کا خیال ہے کہ بوکو حرام جیسی تنظیموں کو امریکی اعانت اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔امریکہ کو درکار تیل کا پانچواں حصہ اس وقت بھی نائیجریا فراہم کر رہا ہے مگر امریکہ یہاں خانہ جنگی کو فروغ دیکر تیل کے ذخائر پر اپنی اجارہ داری بڑھانے کا خواہاں ہے۔ بوکوحرام جیسے گروہ کارروائیاں کرنے کے بعد کیمرون میں جا چھپتے ہیں جو اس وقت مکمل طور پر امریکہ کے زیر اثرہے۔ان خدشات کو اس استدلال سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسی طاقتیں ملکر ان بچیوں کا سراغ لگانا چاہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں نہ ڈھونڈا جا سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعقیدہ اور گمراہ لوگ ہیں۔لیکن مجھے ان شدت پسندوں اور ان انتہاپسندوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا جو بوکو حلال ،باقی سب حرام کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔اس وقت نائیجریا میں لگ بھگ ایک ہزار مسلح گروہ ہیں،کچھ آرگنائزڈ کرائم میں ملوث ہیں،کچھ فرقہ واریت کی آگ سلگائے ہوئے ہیں،کچھ غیر ملکی طاقتوں کا ایجنڈا آگے بڑھائے ہوئے ہیں۔ان میں بہت سے مسلح گروہ اور جتھے مسیحیت سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ سب لڑکیاں اٹھاتے ہیں،بیچتے ہیں اور وہ سب کچھ کرتے ہیں جو جرم کے زمرے میں آتا ہے۔نائیجریا کا سب سے بڑا دہشت گرد گروہ Movement for the emancipation of the Niger delta ہے۔اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔Egbesu Boysہو یا Bakkassi Boys یہ سب مسیحی گروہ ہیں جو آئے دن مسلمانوں کی لڑکیاں اغوا ء کرتے ہیں۔NDDVF,FNDIC,OPC,OTAاور ان جیسے سینکڑوں گروہ آئے دن اس طرح کے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کرتے ہیںمگرکہیں کوئی ہلچل نہیں ہوتی، کسی مذہب کا نام نہیں آتا۔پاکستان میں بلا ناغہ ریپ ہوتے ہیں ،لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلاں کلین شیو ،پینٹ کوٹ ،ٹائی والے بابو نے یہ حرکت کی،کوئی اخبار یہ نہیں بتاتا کہ اس قبیح فعل کا ارتکاب کرنے والے کا تعلق کس ادارے سے تھا لیکن اگر کسی کے چہرے پر داڑھی ہو یا نام کے ساتھ حافظ یا قاری آئے تو ہاہاکار مچ جاتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک بوکو حلال ہے باقی سب حرام اور اسلام تو قطعاً حرام۔
تازہ ترین