4 فروری 2025ءکو اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا، پرنس کریم آغا خان کے انتقال کے ساتھ ہی تاریخ کا ایک اہم باب بند ہوگیا۔ پرنس کریم 13 دسمبر 1936ء کوسوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے اور جولائی 1957ء کو21برس کی عُمر میں آغا خان سوئم کی وصیت کے مطابق49ویں امام کی مسند پر فائز ہوئے۔
وہ 68برس تک اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا رہے۔ اُن کے انتقال کے بعد روایت کے عین مطابق، اُن کے بڑے صاحب زادے53سالہ پرنس رحیم آغا خان پنجم نے11فروری 2025ء کو اسماعیلی کمیونٹی کے50ویں امام کامنصب سنبھال لیا۔
آغا خان شاہ کریم الحسینی کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ اس منصب پر فائز امام کو شریعت کی تعبیر و توضیح کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں، جو اُن کے پیش روؤں کو حاصل تھے۔ اُن کی ہدایت حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے اور اسماعیلی خواتین و حضرات بے چون و چرا خُود کو اس پر عمل کا پابند سمجھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے 35سے زیادہ ممالک میں آباد اسماعیلی برادری کی تعداد لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ ہے، جن میں پانچ لاکھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔
اسماعیلی فرقے کے48ویں امام، سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کی طرح پرنس کریم کا بھی پاکستان سے دیرینہ تعلق رہا۔ آغا خان سوئم، قیامِ پاکستان سے قبل 2نومبر 1877ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ انتہائی کم سِنی، یعنی صرف آٹھ برس کی عُمر میں امام مقرر ہوئے اور 73برس تک روحانی پیشوا رہے۔
اُن کا شمار اپنے زمانے کے عظیم سیاست دانوں اور مدبّرین میں ہوتا تھا۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے اور تحریکِ پاکستان میں اُن کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل رہا، خصوصاً قیامِ پاکستان کے ابتدائی دِنوں میں نوزائیدہ مملکت کی تعمیر و ترقی کے لیے اُن کی کوششیں لائقِ تحسین تھیں۔ 2فروری 1954ء کو جب آغا خان سوئم کی امامت کے 70سال مکمل ہوئے، تو اُن کی پاکستان سے گہری وابستگی کے سبب اُس وقت کے دارالحکومت، کراچی میں اُن کی امامت کی پلاٹینیم جوبلی کی ایک یادگار تقریب بھی منعقد کی گئی، جس میں اسماعیلی برادری نے انھیں قیمتی دھات، پلاٹینیم سے تولنے کی تاریخی رسم ادا کی۔
آغا خان جیم خانہ کراچی میں منعقدہ اس یادگار تقریب میں دنیا بھر سے 60ہزار سے زائد حاضرین نے شرکت کی، جس میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم محمد علی، گورنرسندھ حبیب ابراہیم رحمت اللہ، میر آف ہنزہ، مرکزی وزراء اور سفرا سمیت شہر کی ممتاز شخصیات بھی موجود تھیں۔ اسٹیڈیم کے چھے دروازوں میں سے چاردروازے اسماعیلیوں کے داخلے کے لیے مخصوص تھے، جہاں سے لوگ دعوت نامے دکھا کر داخل ہورہے تھے۔
تقریب کا آغازشام چار بجے تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا۔ اسماعیلی جماعت کے نائب، ڈاکٹر ہود بھائی کے سپاس نامے کے بعد ہزرائل، ہائی نس سرآغا خان نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ ’’میرے روحانی بچّو! مَیں شہرِ کراچی آکر بہت خوشی محسوس کررہا ہوں، آپ کے پیش کیے گئے سپاس نامے پر دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری پلاٹینیم جوبلی کی تقریب میری جائے پیدائش، کراچی میں منعقد ہورہی ہے۔ تاہم، آج ہم اس بات پر افسردہ ہیں کہ بابائے قوم، قائدِاعظم محمد علی جناح، جنہوں نے اس شہر کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا دارالحکومت بنایا،ہمارے درمیان موجود نہیں۔‘‘
اس موقعے پر آغا خان نے ملک سے وفاداری کو اسماعیلیوں کا جزوِ ایمان قرار دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ ’’آپ کو چاہیے کہ پاکستان سے دلی محبّت رکھیں، پاکستان کے شہری کی حیثیت سےکبھی سُستی نہ برتیں۔ ذاتی یا صوبہ جاتی مفادات ترک کرکے صرف پاکستان کی سلامتی و بقاکے خاطر کام کریں اور کچھ کردکھائیں۔‘‘ تقریر کے بعد شام ساڑھے چار بجے انھیں پلاٹینیم میں تولے جانے کی رسم کا آغاز ہوا۔
ترازو پر آغا خان کے وزن کے ہر 14پاؤنڈز کے بدلے ایک اونس پلاٹینیم رکھا جاتا، یوں اُن کے کُل وزن 215 پاؤنڈز کے عوض ترازو پر 15 اعشاریہ 3 اونس پلاٹینیم رکھا گیا۔ اس موقعے پر فضا ’’اللہ اکبر، آغا خان زندہ باد اور پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ یاد رہے، لوگوں کی دل چسپی کے سبب اس تقریب کا آنکھوں دیکھا حال ریڈیو پاکستان، کراچی سے براہِ راست نشر کیا گیا۔
پرنس کریم آغا خان چہارم، مسند پر فائز ہونے کے بعد اتوار 4اگست1957ءکو پاکستان کے چار روزہ دورے پر تشریف لائے۔ مسندپر فائز ہونے کے بعد اُن کا یہ کسی بھی مُلک کا پہلا دورہ تھا۔ پاکستان آمد پر کراچی میں اُن کا شان دار استقبال کیا گیا۔ ائرپورٹ پر اُترے، تو ایک ہجوم اُن کا منتظر تھا۔ شہزادہ کریم سیاہ سوٹ اور سیاہ ٹائی پہنے مسکراتے ہوئے طیارے سے باہر آئے، تو ان کا استقبال اسماعیلیہ سپریم کاؤنسل کے صدر، جی الانہ نے کیا۔
وہاں موجود مہمانوں سے ملنے کے بعد وہ سرکاری معیت میں قصر ِصدارت کی گاڑی میں روانہ ہوئے اور کراچی میں اُس وقت کے صدرِ مملکت، اسکندر مرزا کے خاص مہمان بنے۔ اُسی شام انہوں نے آغا خان جیم خانہ میں اپنے معتقدین سے انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’مَیں اپنے دادا مرحوم کی طرح پاکستان کے شان دار مستقبل اور اس کی تعمیر و ترقی کا خواہاں ہوں۔
پاکستان میرے دل میں ہے، کیوں کہ میرے دادا یہاں پیدا ہوئے تھے۔‘‘ انہوں نے مجمعے کو ’’میرے بچّو!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’مجھے یہاں آکر بڑی مسّرت ہوئی ہے، میں نئی ذمّے داریاں سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان آیا ہوں، لیکن جس طرح میرا استقبال کیا گیا، مجھے مدّتوں یاد رہے گا۔ مَیں مرحوم امام کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں اور اُن کی وفات پر دنیا بھر کے لوگوں نے جس طرح خراجِ عقیدت پیش کیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔‘‘
ان کا کہنا تھا ’’اس مرتبہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں جانے کا موقع نہیں ملے گا، اگر چہ مجھے وہاں آنے کے لیے کہا گیا ہے لیکن دسمبر میں میرا دورہ طویل ہوگا۔‘‘ تقریر کے بعد انہوں نے چند جملے اردو میں ادا کرتے ہوئے کہا ’’آئندہ مَیں پاکستان آیا، تو یہاں تین مہینے ٹھہروں گا۔‘‘ اگلے دن5 اگست کی صبح آغا خان جیم خانہ میں خواتین اور چھے اگست کو مردوں کے ساتھ رسمِ بیعت ادا کی گئی۔ وہ حاضری کے لیے مزار ِقائد بھی گئے۔
اس دورے میں پرنس کریم اپنی رسمِ گدی نشینی کے ضمن میں مشاورت کے بعد کراچی اور ڈھاکا میں دو دو روز قیام کے بعد بمبئی روانہ ہوگئے اور ساڑھے پانچ ماہ بعد امامت کی تخت نشینی کے موقعے پر 21 جنوری 1958ء کو اپنی والدہ، لیڈی جون کے ساتھ دوبارہ کراچی تشریف لائے، تو اُنھیں سرکاری مہمان کا درجہ دیا گیا۔
مرکزی وزیرداخلہ، میر غلام علی تالپور اور صدر ِپاکستان کے ملٹری سیکریٹری، اسماعیلی رہنما، جی الانہ، میر آف ہنزہ نے ان کا شان دار استقبال کیا۔
پاکستان میں قیام کے دوران انھوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’مجھے پاکستان میں اپنے لوگوں سے مل کر بڑی خوشی ہورہی ہے۔ تخت نشینی کے موقعے پر مَیں پہلے کی نسبت زیادہ قیام کروں گا اور اس عظیم ملک کو دیکھوں گا۔ دوسرے ایشیائی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی متعدد مسائل کا سامنا ہے، مگر مجھے توقع ہے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا یہ ملک ترقی و کام رانی کے منازل طے کرے گا اور اپنے ہم سائیوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہے گا۔
مَیں پاکستان کی خوش حالی اور ترقی کے لیے ہرممکن کوشش کروں گا۔‘‘ حکومتِ پاکستان نے پرنس آغا خان کی تخت نشینی کے موقعے پر اظہار یک جہتی کے لیے کراچی میں دن ایک بجے سے عام تعطیل کا بھی اعلان کیا۔ جمعرات 23جنوری شام چار بجے نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں پرنس کریم آغا خان کی رسمِ تخت نشینی کا آغاز ہوا، جس میں صدر اسکندر مرزا، وزیراعظم فیروز خان نون سمیت وفاقی وزرا اور سفرا بھی شریک ہوئے۔ رسم تخت نشینی کے موقعے پر پاکستان کے علاوہ20سے زائد ممالک سے آئے مرد وخواتین اور بچّوں سمیت ڈیڑھ لاکھ عقیدت مندوں نے شرکت کی۔
آغا خان چہارم، پنڈال میں اپنی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ داخل ہوئے، پرنس کریم آغا خان سیاہ ٹوپی، سیاہ پتلون اورسفید شیروانی زیب تن کیے مسند پر تشریف فرما تھے۔ رسمِ تخت نشینی کا آغاز تلاوتِ کلام ِپاک سے ہوا، تو پرنس کریم اٹھ کھڑے ہوئے، ساتھ ہی سارا مجمع بھی کھڑا ہوگیا۔ تلاوت کے اختتام پر دعا مانگی گئی، جس کے بعد رسم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تحائف پیش کرنے کے لیے نوجوانوں کے تین تین گروپ بنائے گئے تھے۔ سب سے پہلے انہیں قرآنِ پاک کا تین سو سال پرانا نسخہ پیش کیا گیا، پھر سفید پھول دارچغہ پہنایا گیا۔
اس کے بعد سنہری دستار اور ایک تلوار پیش کی گئی۔ اُس وقت پورا مجمع تالیوں سے گونج رہا تھا۔ اس کے بعد بائیں ہاتھ میں جڑاؤ انگوٹھی پہنائی گئی اور آخر میں گل دستہ پیش کیا گیا، جس کے ساتھ ہی پرنس کریم کی مسند آہستہ آہستہ چاروں طرف گھومنے لگی اور ایک جانب سے پھول اور غبارے ہوا میں اڑائے جانے لگے، آخر میں طلائی کشتی پیش کی گئی۔
بعدازاں، تخت نشینی کمیٹی کے صدر جی الانہ نے سپاس نامہ پیش کیا۔ جس کے بعد پرنس کریم آغا خان چہارم نے حاضرین سے اپنے خطاب میں کہا۔ ’’معزز خواتین و حضرات! اور میرے روحانی بچّو! کراچی میں میرا جس طرح پُرجوش خیر مقدم کیا گیا، اس سے میں بے حد متاثر ہوں۔ خلوص و محبت سے پیش آنے والے ہر شخص کی یاد میرے دل میں ہمیشہ رہے گی۔
آج میں ایک ایسے عظیم ملک کے شہر، کراچی میں آپ سے محوِ گفتگو ہوں، جو میرے اور میرے خاندان کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے جدِ امجد کراچی میں پیدا ہوئے۔ 1954ء میں میرے دورئہ پاکستان کے بعداس ملک کی ترقی حیرت انگیز ہے۔ ایشیا اور اسلامی ممالک میں پاکستان کو زبردست اہمیت حاصل ہے ،یہ نوزائیدہ قوم ہے، جو فرسودہ روایات کے بہت بڑے بوجھ سے آزاد ہے، لہٰذا خود اپنا مستقبل بناسکتی ہے، خود اپنا معیارِ زندگی اور اخلاقی اصول وضع کرسکتی ہے۔
پاکستان اسلامی ملک ہے، یہ ملک جتنی تیزی سے دنیا کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے گا، اُتنی ہی تیزی سے اس کے مستقبل کے امکانات بھی روشن ہوں گے۔ میری دُعا ہے ملک کے عوام ان امکانات کو حقیقی شکل دینے میں کام یاب ہوں۔پاکستان کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بدلتی ہوئی دنیا کی جدید قدروں، تقاضوں کو پورا کیا جائے اور جدید جمہوریت کی اسلامی شکل میں ڈھالا جائے، یہ کام اگرچہ آسان نہیں، لیکن مجھے یقین ہے، پاکستان اس میں ضرور کام یاب ہوگا۔
مَیں اپنے فرقے سے کہوں گا کہ ہماری تعداد مقابلتاً کم ہوسکتی ہے، لیکن اثرعظیم ہے، تو آپ کا فرض ہے کہ اس اثر کو نہ صرف انفرادی طور پر اپنی ترقی یا پورے اسماعیلی فرقے کی ترقی کے لیے بلکہ پورے پاکستان کی بہبود کے لیے استعمال کریں۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ اس مُلک کی ترقی کے لیے آپ ہرشعبۂ زندگی میں شامل ہوجائیں گے۔
آپ کےلیے تمام شعبے کھلے ہیں، بس صرف بیج بوئیں اور پھل پائیں۔ تاہم ،یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپ ، امریکا اور روس فنی اور صنعتی طاقت ہیں، ایٹمی طاقت کا نیا عظیم اسٹیشن اسپٹنک اور جدید صنعتی مشینیں، جو ترقی کی دوڑ میں ایک نئے باب کی مظہر ہیں، اس باب کا اختتام ہماری نظروں سے دُور ہے اور اس لحاظ سے ہمارے اور قدیم ممالک کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ضرور ہے، لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ اسلام کی روشنی میں ہمارا مستحکم تعلیمی نظام، ہماری مستقبل کی کام یابیوں کا ضامن ہے، میرے خیال میں ہمیں مادّی ترقی سے نہیں ڈرنا چاہیے اور نہ اس کی مذمت کرنی چاہیے، خطریہ ہے کہ کہیں یہ ہماری زندگیوں پر غلبہ نہ حاصل کرلے اور ہمارے ذہنوں پر تسلّط نہ جمالے، لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ہماری روایات اور ہمارا مذہب ہمیں زمانے کے ساتھ ترقی کرنے سے روکے اور نہ اس کی کوئی وجہ ہے کہ ہم علم و دانش کے نئے میدانوں میں آگے نہ بڑھیں، ہم اپنے مستقبل پر پورا اعتماد کرسکتے ہیں، وہ اعتماد جو ہمیں اس یقین سے حاصل ہوا کہ ہمیں اپنی روایات اور اپنے مذہب سے ہمیشہ فکرو عمل کے سلسلے میں فیضان حاصل ہوگا۔‘‘
پرنس کریم آغا خان نے اپنی پوری زندگی پس ماندہ طبقات کی بحالی اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صَرف کی۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہم دردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔ آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذریعے انہوں نے دنیا کے مختلف خطّوں، خصوصاً ایشیا اور افریقا میں تعلیم، صحت، معیشت اور ثقافت کے شعبوں میں فلاحی اقدامات کیے۔ پرنس کریم کو مختلف ممالک اور یونی ورسٹیز کی جانب سے اعلیٰ ترین اعزازات اور اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا۔ جب کہ پاکستان کی ترقی کے لیے مثالی خدمات انجام دینے پر ’’نشانِ پاکستان‘‘ اور’’ نشانِ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔