اپریل تاریخی اعتبار سے ملک کی دو اہم شخصیات کی وفات کا مہینہ ہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 21اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو4اپریل کو اس دنیا سے رخصت ہوئے،علامہ اقبال ایک انقلابی شاعر اور دور اندیش سیاست دان تھے، اسی لئےانکی یہ بات آج ملکی حالات کے عین مطابق نظر آتی ہےکہ’’ قوم کو یہ محسوس کر لینا چاہئے کہ زندگی اپنی حویلی میں کسی قسم کا انقلاب نہیں پیدا کر سکتی جب تک اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب پیدا نہ ہو،کوئی نئی دنیا ا یک خارجی وجود نہیں حاصل کر سکتی، جب تک اس کا وجود انسانوں کے ضمیر میں منتقل نہ ہو۔‘‘ حقیقت بھی یہ ہے کہ ہم آزادی سے اب تک اپنے وجود اور ضمیر کو بدل نہیں سکے، آج بھی مالیاتی اداروں کے سامنے جھولی پھیلا ئے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی اَن تھک کوششوں سے پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو ایک طرف ہمارے پاس رفعتوں اور سربلندیوں کے حامل ادوار ہیں تو دوسری جانب کرپشن اور لوٹ مار کے گرم بازار ،جس نے ہمیں اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اس وقت ہم دنیا کے سامنے رسوائی اور شرمندگی سے دوچار ہیں۔ ملک ان دنوں ایسی شخصیات کا منتظر ہے جنکے دم سے ملت کے جسد کو توانائی مل سکے۔ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹم بم پروگرام کے بانی تھے،ان کی کوششوں سے آج پاکستان دنیاکی ساتویں ایٹمی طاقت بنا ہوا ہے، مگر معاشی طور پر کم زور ہونے کی وجہ سے ہم بیرونی دباؤ کا شکار ہیں،جو ہماری ریاست کی آزادی اور سلامتی پر کاری ضرب ہے،ہم اپنے فیصلے کرنےمیں آزاد نہیں،چین، امریکا اور متحدہ عرب امارات نے ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچا رکھا ہے، ہمارے سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ریٹائر افسران کے اربوں ،کھربوں کے اثاثے ملک سے باہر ہیں، مگر حیرت کی انتہا ہےکہ ملکی تاریخ کے مشکل ترین دور میں بھی کسی نے اپنی دولت ملک کو لوٹانے کیلئے پیش رفت اور پیش کش نہیں کی۔ ملک چلانے کیلئے بیرونی قرضوں پر ہی انحصار کیا جارہا ہے،نوجوان غیر یقینی صورت حال سے نالاں ہو کر دیار غیر کی خاک چھاننے کو اپنے روشن مستقبل کا ضامن خیال کر رہےہیں،کسی بھی ملک میں اس کے مذہبی اور قومی تہوار پر عوام کو حکومت اور تاجروں کی جانب سے ریلیف دیا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں ماہ مقدس رمضان المبارک اور خوشی کے تہوار عید پر جس طرح عوام کا خون چوسا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے،کسی جگہ حکومت کی رٹ دکھائی نہیں دیتی،یہ ہماری ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دوسری جانب معاشی بدحالی کی بدولت عام آدمی کا جینا محال ہوچکا ہے، دہشت گردی کاعفریت ایک بار پھر سر اٹھا چکا ہے،بلوچستان سلگ رہا ہے، جعفر ایکسپریس کا واقعہ انسانی تاریخ کا المیہ ہے، ملک میں اس وقت نفرت اور انارکی کے ایسے بیج بو دیئے گئے ہیں کہ نظریے کے اختلاف کی بنا پر بھائی بھائی کا خون بہانے کو اپنے لئے سعادت سمجھنے لگا ہے، بے گناہ لوگوں کو بلوچستان میں قتل کیا جارہا ہے،بلوچستان کے حالات بہت سنگین ہیں ، اس کا ادراک غالباً دیگر صوبوں کے لوگوں کونہیں ۔جو حالات کو جانتے ہیں، وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان کس رخ پر ہے۔
بلوچستان کومحض ایک صوبائی نہیں بلکہ قومی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ایک طرف علیحدگی پسند عناصر ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کی سیاسی قیادت بھی ریاستی اور وفاقی سطح پر حکومت کی پالیسیوں پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔ خیبرپختونخوا کوگزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ دہشت گردی اور بدامنی کاسامنارہا ہے۔
شاید ہی کوئی خاندان ہو جس کے گھروں سے جنازے نہ نکلے ہوں۔ گزشتہ دو سال سے افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد حالات تیزی سے بگڑے ، آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ریاست کو ایک دفعہ پھر عمل داری قائم کرنے کیلئےحرکت میں آنا پڑا۔تحریک انصاف کی حکومت صوبے کو مورچہ بنا کر ریاست اور وفاق پر حملہ آور ہے جس کا براہ راست نقصان عوام کو پہنچ رہا ہے ۔
امن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے ، خیبر پختونخوا کے حالات پر مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ ملک میں اس وقت یک جہتی کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کو اس صورت حال میں اپنی ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا،مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا، تمام سیاسی جماعتیں ملک و قوم کی خاطر متحد ہو جائیں۔
عالمی حالات بھی کشیدہ ہیں،غزہ اور فلسطین کی سرزمین کا رنگ ہی تبدیل ہوچکا ہے،ہر طرف خون اور آگ ہے،امریکا ایران خلفشار بڑھ رہا ہے ،شام میں بشارالاسد کا تختہ الٹنے کے بعد سے حالات غیر یقینی کا شکار ہیں،یمن،لبنان بھی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں،عراق میں بھی گڑ بڑ ہے، افغانستان اور بھارت کھل کر پاکستان کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں،ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں بھی مسلمانوں کیلئےاچھی نہیں ،امریکا کودشمنی و منافرت کی جگہ عالمی امن، انسان دوستی رواداری و برداشت کو اپنی اندرونی و بیرونی پالیسی کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ دنیا میں امن قائم ہوسکے۔
جنگ اور جبر کسی مسئلے کا حل نہیں،پاکستان کے حکمرانوں کو ملکی ترقی کیلئے اپنی حکمت عملی بدلنا ہوگی، خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی،ہر قسم کے غیر ملکی دباؤ سے نکلنا ہوگا تب ہی ہم آگے بڑھتےہوئےسر اٹھا کر جی سکتے ہیں۔