رمضان المبارک میں بچت رہی، اب عید کے بعد بودی سرکار اچانک نمودار ہوئے ہیں، غصہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے، چہرہ سرخ ہو چکا ہے، میں اسلام آباد میں اپنے ڈیرے پر لوگوں کیساتھ گپ شپ کر رہا تھا جونہی بودی سرکار کو آتے دیکھا تو چپ کر گیا کہ نہ تو بودی سرکار نے کسی کی سننی ہے اور نہ ہی کسی بات کا اثر قبول کرنا ہے، بس اپنی سنانی ہے۔ خیر! میں نے ان کیلئے صدارتی کرسی چھوڑ دی مگر وہ کھڑے رہے اور کہنے لگے ’’آج کھڑے کھڑے بات ہو گی‘‘۔ میں نے ان سے عرض کیا، حضور تشریف رکھیں۔ یہ کہنے کی دیر تھی باقی لوگ بھی اصرار کرنے لگے کہ پیر صاحب! تشریف رکھیں۔ سب کے پرزور مطالبے پر بودی سرکار بیٹھ گئے، میں نے ملازم کو اشارہ کیا، وہ فوراً شربت لے آیا مگر بودی سرکار نے شربت پینے سے صاف انکار کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ ’’میں صرف سردائی پیوں گا‘‘۔ یہ حکم سنتے ہی میں ایک اور چیلے کی طرف متوجہ ہوا ، میں نے اس سے کہا کہ ملازم کو سائیڈ پہ لے جاؤ اور اسے سمجھاؤ کہ چاروں مغز، دو الائچی اور کچھ بادام لیکر اچھی طرح رگڑے پھر اس میں کچھ دودھ ملا کے تھوڑی سی دھاگے والی مصری بھی ڈال دے اور ہو سکے تو ایک آدھ ٹکڑی برف کی بھی ڈال دے، اس طرح سردائی تیار کرکے لے آئے۔ یہ ترکیب سمجھانے کی وجہ یہ تھی کہ آج کل کے ملازمین کو سردائی کا علم ہی نہیں۔ چیلے نے میری باتوں پر عمل کیا، اس دوران ہم میں سے کسی ایک نے بودی سرکار سے حالات حاضرہ پر تبصرے کیلئے کہا تو وہ غصے سے بولے ’’جب تک میں سردائی کے دو گلاس نہیں پیوں گا، کچھ نہیں کہوں گا‘‘۔ اللہ اللہ کر کے سردائی آئی اور پیر بودی سرکار نے غٹا غٹ دو گلاس چڑھا لئے اور ساتھ ہی ملازم کو حکم صادر کیا کہ ’’سردائی میرے پاس رکھو، کسی اور کو نہیں دینی‘‘۔ بس اب بودی سرکار ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے ’’تم میں سے کسی نے کیا پوچھا تھا؟‘‘ ایک مسکین بولا، ’’حالات حاضرہ پر تبصرے کیلئے عرض کیا تھا‘‘۔ بس پھر بودی سرکار نے مسئلہ فلسطین چھیڑ دیا، کہنے لگے ’’تم مسلمانوں کو شرم نہیں آتی، تمہیں آخرت کی کوئی فکر نہیں، تم اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہو، کس طرح بم گرائے جا رہے ہیں، کس طرح انسانوں کے لاشے اڑ رہے ہیں اور مسلمان دنیا کس طرح خاموش ہے، تمہیں احادیث یاد نہیں رہیں، تم کس طرح اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی مدد کرنا بھول گئے ہو، تم بزدل ہو،تمہارے بارے میں تو اقبال کہہ گیا تھا
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
تم اپنی بزدلی کی وجہ سے رسوا ہو رہے ہو اور اپنے سامنے اپنے بہن بھائیوں کی لاشوں کے ڈھیر دیکھ رہے ہو‘‘۔ بودی سرکار کی گفتگو جاری تھی، ایک آدمی نے کہا’’سرکار! اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہم کڑھ ہی سکتے ہیں اور کڑھتے رہیں گے کیونکہ ہم بولنا چاہیں تو ہماری آوازوں کو روک دیا جاتا ہے، ہمارے لئے کلمہ حق کہنا مشکل بنا دیا گیا ہے‘‘۔ اب بودی سرکار کا پارہ ہائی ہوا اور وہ غصے سے بولے’’مجھے پہلے ہی پتہ تھا، تم جیسے نکھٹو یہی کہیں گے، تمہارا قصور نہیں تو کس کا ہے؟ کیا اسلامی ریاستوں کے حکمران خاموش نہیں ہیں؟ کیا فلسطینیوں کی مدد کیلئے وسائل نہیں ہیں؟ کیا انکے پاس افرادی قوت بھی نہیں؟ چھوڑو ان باتوں کو، میں نہیں مانتا ان باتوں کو، تم لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کی تقریر بھول گئے ہو؟ اس نے کہا تھا، فلسطینیوں کا قصہ تمام ہونے کے بعد شامیوں اور لبنانیوں کی باری آئیگی، اس کے بعد مصر اور اردن کی باری ہے، مصر اور اردن کو راستے سے ہٹانے کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر قبضے کیلئے خلیج کی جانب پیش قدمی ہو گی تاکہ دریائے نیل سے فرات تک گریٹر سلطنت کا خواب پورا کیا جا سکے۔ میں اپنے خلیجی بھائیوں سے کہتا ہوں، وہ دن دور نہیں جب تم اپنے ائر کنڈیشنڈ محلات اور لگژری گاڑیاں چھوڑ کر جان بچانے کیلئے صحرائے ربع الخالی کی جانب دوڑو گے، جہاں تم بمباری سے پناہ و نجات مانگو گے لیکن تمہیں نجات نہیں ملے گی، اسکے بعد شمالی افریقہ کے عرب ممالک کی شامت آئیگی۔ قذافی کی باتوں پر عمل شروع ہو چکا ہے، اب بھی وقت ہے کھڑے ہو جاؤ‘‘۔
اچھا سرکار! پاکستان کا بتائیں، بودی سرکار ’’پاکستان جہاں زرعی ترقیاتی کونسل کے سربراہ کو 23 مارچ کو ستارہ امتیاز دیا جاتا ہے اور دو دن بعد اسے ناقص کارکردگی پر معطل کر دیا جاتا ہے، ایک اور آدمی کو جیل میں عید کی نماز ادا کرنے نہیں دی جاتی، اس سے برے حالات کیا ہوں گے؟ سن لو! کان کھول کے سن لو !! اگلے دو مہینوں میں بہت کچھ ہونے والا ہے، پاکستان میں بھی اور دنیا میں بھی‘‘۔ پروفیسر مقصود جعفری یاد آ گئے کہ
قید قفس سے مجھ کو رہائی ملی تو ہے
لیکن رہا ہوا ہوں میں جلتے پروں کے ساتھ