• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: بیس سال پہلے ایک نکاح ہوا، جس میں باون ہزار روپے سکہ رائج الوقت مؤجّل حق مہر مقرر ہوا، اب تک مہر ادا نہیں کیا گیا۔ اب وہ شخص مہر ادا کرنا چاہتا ہے، تو کیا باون ہزار روپے ہی ادا کرے گا یا نکاح کے وقت باون ہزار روپے میں جتنا سونا آتا تھا، اس وقت اس سونے کی مقدار رقم دینا پڑے گی، (محمد شاکر، کراچی)

جواب: صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے مہر میں باون ہزار روپے مؤجل مقرر کیے ہیں، جب بھی ادا کرے گا، باون ہزار روپے ہی ادا کرے گا، سونے کی صورت میں ادائیگی نہیں کی جائے گی اور بیوی سونے کی صورت میں مہر کی ادائیگی کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتی، البتہ شوہر خود کچھ بڑھ کر دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ:’’پس جن عورتوں سے نکاح کرکے تم لطف اندوز ہوچکے ہو، ان کے مقررہ مہر انھیں ادا کردو، یہ اللہ کا فرض (کیا ہوا) ہے اور مہر مقرر کرنے کے بعد تم (جس کمی بیشی پر) باہم رضامند ہوگئے ہو، تو اس میں کوئی حرج نھیں ہے ، (النساء:24)‘‘۔

مہرِ مؤجل وہ ہے، جس کی ادائیگی کی کوئی میعاد مقررکی جائے، اگر کوئی میعاد مقرر کردی گئی ہے، مثلاً: پانچ سال، دس سال یا کوئی بھی مدت، تو اس میعاد پر مہر کی ادائیگی لازم ہوجائے گی، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور اگر کہا: نصف مہر معجّل ہے اور نصف مؤجّل، جیسا کہ ہمارے ملک میں رائج ہے اور مؤجّل کی ادائیگی کا وقت مقررنہیں کیا، تو اس میں مشایخ کااختلاف ہے، بعض نے کہا: (میعاد مجہول ہونے کے سبب) مہر کی ادائیگی میں تاخیر ناجائز ہے اور مہرفوراً واجب ہے اور بعض نے کہا: تاخیر جائز ہے اور(کسی ایک کی) موت یا طلاق کی صورت میں مہرکی ادائیگی لازم ہوجائے گی، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:318)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’ اگر مہرِ مؤجّل یعنی میعادی ہے اور میعاد مجہول ہے، جب بھی فوراً دینا واجب ہے۔ ہاں! اگر مؤجّل ہے اور میعاد یہ ٹھہری کہ موت یا طلاق پر وصول کرنے کا حق ہے، تو جب تک طلاق یا موت واقع نہ ہو ،وصول نہیں کرسکتی، جیسے عموماً ہندوستان میں یہی رائج ہے کہ مہرِ مؤجل سے یہی سمجھتے ہیں ،(بہارِ شریعت ، جلد دوم،ص:75)‘‘۔ خلاصۂ کلام یہ کہ زوجین کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہونے یا محض خَلوتِ صحیحہ ہونے یا دونوں میں سے کسی ایک کی موت واقع ہونے کی صورت میں مہر کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے۔

جتنا مقرر ہوا، اُس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی، مذکورہ شخص کے ذمے مبلغ باون ہزار روپے مہر واجب ہے، آسانی اسی میں ہے کہ اُتنا ہی مہر اداکرے ، البتہ اگر نکاح کے وقت ایک خاص مقدار میں سونے کا مہر مقرر کیا تھا (مثلاً : ایک تولہ یا دوتولہ سونا)، تو پھر سونا ہی دینا ہوگا، خواہ اس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہو۔(واللہ اعلم بالصواب )