• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میں نے اپنے بیٹے کا نام سارنگ شیخ اور بیٹی کا نام سندھیا رکھا تھا، یہ دونوں عاقل وبالغ ہیں ۔ علماء سے معلوم ہوا کہ یہ نام اسلامی نہیں ہیں ، اب میرے یہ دونوں بچے اپنا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں، بیٹا محمد بلال اور بیٹی آمنہ نام رکھنا چاہتی ہے ، شرعی رہنمائی فرمائیں ،(ارشاد احمد ، کراچی)

جواب: اردو لغت کی مُتعدد کُتُب میں سارنگ کے درج ذیل معنیٰ بیان کیے گئے ہیں:

(۱) دیپک کی ایک راگنی (۲) شہدکی بڑی مکھی(۳) مور(۴) ایک قسم کا سانپ (۵) بادل(۶) مور کی جھنکار(۷) ہاتھی (۸) شیر( ۹) طرح طرح کے رنگ(۱۰) دھنک(۱۱) بھونرا

شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کا موضوع ’’سارنگ‘‘ ہے، جسے سندھی میں سُر سارنگ کہا جاتا ہے ، اس کے مطابق اس کا معنیٰ ’’موسم‘‘ یا’’ بادل والا موسم ‘‘ ہے۔ سارنگ کے چند معنیٰ مناسب ہیں ،لیکن اکثر معنیٰ ناپسندیدہ ہیں۔

اسی طرح ’’سَندِھیا‘‘کے معنیٰ ہیں: (۱)دن اور رات کے ملنے کا وقت(۲) ہندو مذہب میں صبح ،دوپہر اور شام کے وقت کی پوجا۔

سارنگ اور سندھیا یہ نام عموماً ہندو مذہب کے ماننے والے لوگ رکھتے ہیں، بہتر ہے کہ آپ ان ناموں کو تبدیل کردیں۔ اچھے نام رکھنے اوراچھے ناموں کے ساتھ پکارنے کے بارے میں قرآن وحدیث میں تعلیمات موجود ہیں۔ برے نام سے پکارنے کی ممانعت: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ:’’ اور ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو،(سورۂ حجرات:11)‘‘۔

حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ بیان کرتے ہیں:’’ میں سعید بن مسیّبؒ کے پاس بیٹھا، تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا : اُن کے دادا، جن کا نام ’’حَزْن‘‘ تھا، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟، انہوں نے عرض کی: میرا نام ’’حَزْن‘‘ ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ تمہارا نام ’’سَہَل‘‘ ہے، انہوں نے عرض کیا: میں اپنے اُس نام کو جو میرے باپ نے رکھا، تبدیل نہیں کروں گا، تو سعید بن مسیب نے کہا: تو (اسی لیے) ہمارے خاندان میں ’’حزونۃ‘‘(سختی) ہے ،(صحیح بخاری: 6193 )‘‘۔حزونۃ کے معنٰی سختی کے ہیں ، اس سے یہ مفہوم اَخذ کیاجاسکتا ہے کہ نام کی معنویت کا اخلاق ومزاج پر کوئی اثر مرتب ہوسکتاہے ،ایساہونا ضروری نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے بعض نام نیک فال اور استحباب کے طور پر تبدیل بھی فرمائے، کیونکہ یہ قاعدۂ کلیّہ نہیں ہے کہ اگر کسی کے نام میں معنوی حسن نہیں ہے، تو اسے لازماً تبدیل کردیا جائے، چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے بعض کے اسمائے گرامی، جن میں معنوی حسن نہیں ہے ،آپ ﷺ نے تبدیل نہیں فرمائے۔ 

بلکہ نسبت سے عقیدت کی وجہ سے امت میں یہ نام رکھنے کی روایت ہمیشہ موجود رہی ہے ، کیونکہ اکابر کے نام پر نام رکھنے میں نسبت کی فضیلت کا حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے، ان میں سے چند نام یہ ہیں: جیسے عباس، عثمان، مُصْعَب، حُذَیفہ، سِماک، اُویس،حنظلہ، عِکرمہ ، وکیع، قُتیبہ ، مِسوَر، عکاشہ، عَلقَمہ، عوف، جندل وغیرہ۔

رسول اللہ ﷺ نے اچھے نام رکھنے کی تلقین فرمائی اور چند ناموں کو آپ ﷺ نے تبدیل بھی فرمایا جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہیں قیامت کے دن تمہارے ناموں اور تمہارے آباء کے ناموں سے پکاراجائے گا ،پس تم اچھے نام رکھاکرو ،(سُنن ابوداؤد:4948)‘‘۔

(۱)ترجمہ:’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ برے نام کو (اچھے نام سے) تبدیل کر دیا کرتے تھے، (سنن ترمذی:2839) ‘‘۔(۲) ترجمہ:’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیہ تھا، رسول ﷲ ﷺ نے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا ،(صحیح مسلم:5599)‘‘۔واضح رہے کہ’’ عاص ‘‘کے معنی نافرمان کے ہیں اور ’’عاصیہ‘‘ اس کا مؤنث ہے۔ (جاری ہے)