دنیا کی دو بڑی معیشتوں کی تجارتی جنگ کے تیزی سے بدلتے رنگوں اور رجحانات کے دوران بدھ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اچانک سامنے آنے والے اعلان کے ذریعے پاکستان سمیت امریکہ پر جوابی ٹیکس عائد نہ کرنے والے بیشتر ممالک پر جوابی ٹیرف 90روز کے لئے معطل جبکہ چین پر جوابی ٹیرف مزید بڑھا کر 125فیصد کردیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ وہ چین سمیت دنیا کے تمام ممالک سے بات چیت اور ڈیل کرنے کے لئے تیار ہیں تاہم بیجنگ تاحال مذاکرات کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کی وضاحت کے بموجب مذکورہ مہلت صرف جوابی ٹیرف پر ہے جبکہ 10فیصد بنیادی ٹیرف برقرار اور تمام ممالک پر لاگو رہے گا۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے پچھلے ہفتے اعلان کردہ محصولات کے منصوبوں اور بیان کے اثرات نے پیر (8اپریل 2025ء) کو دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں گراوٹ کی ایسی صورتحال پیدا کر دی تھی جس کے بعد حصص منڈیوں کے حوالے سے اس دن کو’’بلیک منڈے‘‘ کہا گیا اور عالمی کساد بازاری کے منڈلاتے خطرات کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔ امریکی صدر کے جس بیان کے بعد دنیا بھر کی منڈیوں میں گراوٹ کی صورتحال نمایاں ہوئی اس میں ٹیرف میں کمی کے ایشیائی ملکوں کے مطالبے پر ردّعمل دیتے ہوئے بھاری ٹیرف ختم کرنے کے لئے کڑی شرط رکھی گئی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بیجنگ واشنگٹن پر 34فیصد محصولات عائد کرنے کا فیصلہ 8اپریل تک واپس نہیں لیتا تو 9اپریل سے چین پر 50فیصد اضافی ٹیکس لگاتے ہوئے ٹیرف کو 104فیصد تک پہنچا دیا جائے گا۔ مگر 9اپریل کو چین پرجوابی ٹیرف 125فیصد کرنے کے اعلان کے بعد کشیدگی بڑھنے کے خدشات اتنے نمایاں ہیں جن کا حل نکالا جانا پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔ امریکی صدر کے 9اپریل کے دھماکہ خیز اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں 7فیصد بڑھوتری دیکھی گئی۔ تیل ،گیس اور گولڈ کی قیمتیں بھی بڑھیں۔ چینی کرنسی یوآن کی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوکر 7.3498فی ڈالر کی سطح پر آگئی۔ دوسری جانب چین نے جوابی اقدامات کرتے ہوئے امریکہ سے درآمد ہونے والی تمام مصنوعات پر ٹیکس بڑھا کر 84فیصد کر دیا ہے۔ چین اور امریکہ دونوں کی طرف سے ایک دوسرے پر غلطیوں کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں جبکہ بیجنگ نے سیاحوں کو امریکہ کا سفر کرنے سے پہلے خطرات کا مکمل جائزہ لینے کی تنبیہ کی ہے۔ یورپی یونین نے امریکی صدر کے نئے اقدام کے بعد امریکی مصنوعات پر عائد 25فیصد ڈیوٹی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ اس سے قبل 27رکنی بلاک نے سویابین، موٹر سائیکلوں اور بیوٹی پروڈکٹس سمیت 20ارب یورو سے زیادہ مالیت کی امریکی مصنوعات کو نشانہ بنانے کا اعلان کیاتھا۔ امریکی صدر کےبیان کے بموجب 75سے زیادہ ممالک نے ا نکے ساتھ مذاکرات کی درخواست کی ہے۔ مذکورہ منظرنامہ متقاضی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے تفکرات نظراندازنہ کئے جائیں ۔ معاشی بحالی کیلئے کوشاں پاکستان کے لئے برآمدات پر 29فیصد امریکی ٹیرف سے 70کروڑ ڈالر تک نقصان کا تخمینہ ہے۔ اس باب میں ایک طرف پاکستانی سفارت خانہ امریکی حکومت سے رابطہ میں ہے دوسری جانب برآمد کنندگان اور معروف کاروباری شخصیات کی شمولیت کے ساتھ اعلیٰ سطح کاوفد امریکہ بھیجا جارہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کی تجارتی شراکت داری دہائیوں پر محیط ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مستقبل کے ٹیرف پر مذاکرات دونوں ملکوں کے لئے قابل قبول نتائج دیں گے۔ خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے خدشات کے منظر نامے میں پاکستان کے لئے معاونت کے پہلو پیش نظر رکھنے کی ضرورت بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے۔