• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ایک مرحوم پروفیسر تھے تو کیمسٹری کے، مگران کی تین خصوصیات کمال کی تھیں، وہ کیمسٹری کے باقی استادوں کو ناپسند کرتے تھے، دوسرے وہ ادبیات، پاکستانیات سے متعلق انگریزی، اردو کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے اور اس میدان میں پڑھنے کا دعویٰ کرنے والوں کا امتحان لیتے رہتے تھے اور اکثر سرائیکی میں کہتے تھے ’لخ لعنت‘ (ایسے حسن کلام کی وجہ سے جیل میں بھی رہے) مجھ سے میرے پسندیدہ مصنفوں کے بارے میں سوال کرتے تو کہتے مجھے ان کی کتابوں کے نام مت بتاؤ بس یہ بتاؤ کہ انہوں نے زبان میں کسی ایک لفظ کا بھی اضافہ کیا؟ میں جب اپنے پسندیدہ کالم نگاروں میں منو بھائی کا ذکر کرتا تو وہی سوال دہراتے۔ میں نے کہا کہ ضیاءالحق کے دور کی بوالعجبیوں اور سفاکیوں کے بارے میں منو بھائی نے ’’درفنطنی‘‘ کا لفظ تخلیق کیا جس کا ماخذ، پنجابی کا ’’در فٹے منہ‘‘ تھا پھر وہ سرائیکی قلم کاروں کے بارے میں پوچھتے تھےتو میں سرائیکی کے شاعر نصراللہ خان ناصر کا قصہ سناتا تھا جنہوں نے بتایا تھا کہ بہاول نگر کے ایک گاؤں میں، میں نے ایک دکاندار سے ایک عورت کو پوچھتے دیکھا ’’بھرا وا، ٹھگو ہئی ٹھگو؟‘‘ تو میں رک گیا دیکھوں تو یہ کیا ہے! دکاندار اندر گیا اور بچے کی چوسنی لے آیا۔ رفتہ رفتہ یہ ٹھگو دوستوں میں ایک استعارے کے طور پرمقبول ہوا۔

ہمارے تاج محمد لنگاہ سرائیکی تحریک کے بڑے لیڈر تھے مگر ان کا پہلا اور آخری تعارف یہی تھا کہ وہ میاں ممتاز خان دولتانہ سے 1970 کے انتخابات میں چند سو ووٹوں سے ہارے تھے بعد میں انہوں نے کئی الیکشن لڑے مگر کامیاب نہ ہوئے۔ عام طور پر کسی جرنیل کے دور اقتدار میں یہ افواہ پھیلتی کہ سرائیکی صوبہ بن رہا ہے۔ محمود نظامی فلک شگاف نعرہ لگاتا ’’تھل ماڑو دا سارا پینڈا ہک بلانگھ‘‘ میں اسے چھیڑتا آؤ تمہیں ’’ٹھگو‘‘ کا مطلب سمجھاؤں۔ پھر بڑے بڑے پڑھے لکھے اس کے مددگار ہو جاتے منصور کریم جیسے سرائیکی شاعروں کی نظمیں سناتے، مشاعروں کے باغیانہ نعرے دہراتے مگر میں کہتا کہ ہمارا سب سے بڑا باغی عاشق بزدار ہے وہ پیپلز پارٹی سے وابستگی کے باوجود اپنے علاقے کے وڈیروں کے مقابلے پر الیکشن ہار جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں ابھی قبائلی معاشرہ ہے ملتان میں مولانا حامد علی خان اور تحریک نظام مصطفی کے اثرات باقی ہیں البتہ ریاست بہاولپور کی بحالی کے لئے ایک طبقہ پرجوش رہا ہے مگر ہماری تین مقبول سیاسی جماعتوں کی چپقلش نے اسے بھی تماشہ گر کے اشارے سے باندھ رکھا ہے۔

ہمارا رفعت عباس، لوک قصوں سے سرائیکی وسیب کی یادداشت جگانے کی بات کرتا ہے اب اس وسیب کے دریاؤں کے ساتھ کیا ہوا؟ دریائے گھاگھرا چولستان کے صحرا میں گم ہو گیا، ستلج کا پانی بک گیا اور تو اور اپنے جس چناب کو ہم چندر آب کہتے تھے وہ اب سکندری نالے کے برابر رہ گیا ہے۔ ہاں جب سیوریج کے بڑے پائپ پھٹتے ہیں تو بعض بزرگوں کی پیش گوئیاں یاد آتی ہیں کہ دو دریا سلام بھرنے یا قدم بوسی کو آئیں گے تو چھ ہزار سال سے آباد یہ شہر غرق ہو جائے گا۔

اور تو اور جس سندھو کو اباسین کہا گیا تھا جس کے لئے شاہ لطیف نے مومل رانو اور سسی پنوں کے قصے سنائے سچل اور خواجہ فرید نے عوامی یادداشت میں رسیلے نغمےبھرے اسی میں سے طاقت وروں نے چھ نہریں نکالنے کے منصوبے بنائے ہیں مگر کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا ٹھگو معصوم بچے کی طرح منہ میں رکھیں یا نکال دیں اور ہاں وہ تماشہ گروں کے اشارے پر جو سرائیکی صوبہ محاذ بنتے ہیں وہ بنتے رہیں گے؟

تازہ ترین