(امجد شریف، گوجرانوالہ)
جو بھی اُس کی دوستی میں آگئے
وہ تو گویا زندگی میں آگئے
اِک نظر جو اُس نے دیکھا ناز سے
کس قدر ہم روشنی میں آگئے
چل رہا تھا مَیں تو اس کی یاد میں
کتنے منظر دل کَشی میں آگئے
مات ہم کو ہوگئی تو کیا ہوا
کیا یہ کم ہے، وہ خوشی میں آگئے
دیکھتے ہی ایک چہرہ پُھول سا
پُھول کتنے تازگی میں آگئے
منزلوں پر مُجھ کو امجدؔ دیکھ کر
راستے دیوانگی میں آگئے
(صفدر صدیق رضی)
کوئی بھی سہولت ہو، سہولت سے نہیں آئی
ہم تک تو محبّت بھی محبّت سے نہیں آئی
ہم نے تو کبھی سُود و زیاں کا نہیں سوچا
یہ پیار کی دولت ہے، تجارت سے نہیں آئی
کچھ غم نہیں رسوائی کا، اس بات کا غم ہے
رسوائی جو آئی ہے، تو عزّت سے نہیں آئی
اجداد کا رشتہ ہے فراوانیٔ تہذیب
مُجھ تک یہ کسی مالِ غنیمت سے نہیں آئی
رات آئی تھی، سونے کا ارادہ بھی کیا تھا
پر نیند تِرے خواب کی حُرمت سے نہیں آئی