جاپان ان دنوں غیر ملکی ہنر مندوں کیلئے سنہری موقع بن چکا ہے۔ جاپانی حکومت نے اپنے معاشی پہیے کو تیز تر بنانے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی عمر رسیدگی کا مقابلہ کرنے کیلئے ہنرمندوں کیلئے اپنی منڈی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ جاپان نے 2019ء میں‘‘اسپیشلائزڈ اسکلڈ ورکر’’(SSW) ویزہ اسکیم کا آغاز کیا، جس کے تحت پانچ سال کے دوران پانچ لاکھ غیر ملکی کارکنوں کو جاپان بلانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ یہ اسکیم تعمیرات، زراعت، نرسنگ، صفائی، فیکٹریوں، اور ریستورانوں سمیت 14شعبوں پر مشتمل ہے۔ اب تک سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ممالک میں ویتنام، فلپائن، انڈونیشیا، نیپال اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ ویتنام سے ایک لاکھ سے زائد افراد جاپان پہنچ چکے ہیں۔ نیپال جیسے نسبتاً چھوٹے ملک سے بھی تقریباً 50 ہزار کارکن جاپان میں کام کر رہے ہیں۔ فلپائن سے یہ تعداد 80 ہزار کے لگ بھگ ہے، جبکہ بنگلہ دیش سے بھی تقریباً 20ہزار لوگ اس پروگرام کے تحت جاپان پہنچے ہیں۔ بھارت بھی پیچھے نہیں رہا۔ اب تک 12,000 بھارتی شہری جاپانی زبان سیکھ کر جاپان میں کام کر رہے ہیں، اور خاص بات یہ ہے کہ بھارت میں جاپانی زبان سکھانے کیلئے باقاعدہ سرکاری سطح پر منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
بھارت نے دہلی، ممبئی، چنئی اور کولکتہ سمیت مختلف شہروں میں جاپانی زبان کے سرکاری تربیتی مراکز قائم کیے ہیں جہاں ہر سال ہزاروں طلباء جاپانی زبان اور ثقافت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ جاپانی کمپنیوں کے معیار پر پورا اتر سکیں۔ نیپال میں بھی جاپانی زبان سیکھنا نوجوانوں کیلئے روزگار کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے، جہاں سینکڑوں ادارے جاپانی زبان کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
دوسری طرف، پاکستان جیسے ملک کیلئے یہ ایک خواب ناک حقیقت بن چکی ہے۔ پاکستان بھی ان چند خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جنہیں جاپانی حکومت نے اس پروگرام کا حصہ بنایا، مگر افسوسناک طور پر اب تک صرف 2,000 پاکستانی ہی جاپان جا سکے ہیں۔ اتنی کم تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں اس پروگرام کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ بیوروکریسی روایتی غفلت کا شکار ہے اور پاکستانی نوجوان میرٹ پر جاپان آنے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
پاکستان میں جاپانی زبان سیکھنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ جو چند ادارے موجود ہیں وہ یا تو نجی سطح پر ہیں یا پھر اتنے محدود وسائل رکھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر تربیت فراہم کرنا ممکن نہیں۔ دوسری طرف، سرکاری سطح پر کوئی مربوط حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ نہ ہی وزارتِ اوورسیز پاکستانیز اور نہ ہی وزارتِ تعلیم نے سنجیدگی سے اس موقع کو پالیسی کا حصہ بنایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہزاروں نوجوان روزگار کی تلاش میں خوار ہو رہے ہیں اور جاپان کی جانب سے دیے گئے اس سنہری موقع سے محروم ہیں۔
یہ صورتحال لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، اور لاکھوں نوجوان بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہیں۔ جاپان کا یہ پروگرام نہ صرف پاکستان کیلئے قیمتی زرمبادلہ کما سکتا ہے بلکہ نوجوانوں کو باعزت روزگار بھی فراہم کر سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ وزیرِاعظم خود اس معاملے کو دیکھیں اور ذاتی دلچسپی لیں۔ بیوروکریسی کو خواب غفلت سے جگایا جائے، اور جاپانی زبان کی تربیت کو قومی پروگرام کا حصہ بنایا جائے۔
ہمیں بھارت، نیپال، فلپائن، اور ویتنام جیسے ممالک سے سیکھنا ہوگا، جنہوں نے وقت کے تقاضوں کو پہچانا اور اپنی افرادی قوت کو جاپان جیسے ملک کی ضروریات کے مطابق تیار کیا۔ جاپان میں پاکستانی سفارتخانے کو بھی مزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں موجود پاکستانی کمیونٹی کے ذریعے نئی راہیں کھولی جا سکیں۔
اگر پاکستان نے بروقت اقدامات نہ کیے، تو جاپان جیسے مواقع بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے اور پاکستانی نوجوان صرف حسرت ہی کرتے رہ جائیں گے۔ ابھی وقت ہے کہ پاکستان جاپان کے ساتھ اس شراکت داری کو مضبوط بنائے، جاپانی زبان کے مراکز قائم کرے، اور اپنی برآمدات کا دائرہ افرادی قوت تک وسیع کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف پاکستان کے اقتصادی حالات کو بہتر بنا سکتا ہے بلکہ ہمارے نوجوانوں کو عزت اور خودمختاری کے ساتھ روزگار فراہم کر سکتا ہے۔