بنگلا دیشی حکام نے معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی بھانجی، برطانوی رکنِ پارلیمنٹ اور سابق وزیرِ محنت ٹیولپ صدیق کے وارنٹِ گرفتاری جاری کر دیے۔
سابق برطانوی وزیر برائے اقتصادی امور ٹیولپ صدیق پر کرپشن کا الزام ہے۔
بنگلا دیش کا انسدادِ بدعنوانی کمیشن (اے سی سی) ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ ٹیولپ صدیق نے اپنی خالہ شیخ حسینہ کے دورِ حکومت کے بارے میں وسیع تر انکوائری کے حصے کے طور پر، جنہیں اگست میں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، غیر قانونی طور پر زمین حاصل کی تھی۔
ہیمپسٹڈ اور ہائی گیٹ کی نمائندگی کرنے والی اور جنوری میں ٹریژری کے اقتصادی سیکرٹری کے عہدے سے مستعفی ہونے والی ٹیولپ صدیق کو 50 سے زائد دیگر افراد کے ساتھ گرفتاری کے وارنٹ میں نامزد کیا گیا ہے۔
ٹیولپ صدیق کے وکلاء نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیولپ صدیق ’سیاسی طور پر محرک‘ ہیں، اے سی سی نے وارنٹ گرفتاری کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور نہ ہی انہیں باضابطہ طور پر مطلع کیا ہے۔
برطانیہ کے قانون کے مطابق بنگلا دیش کی 2B حوالگی والے ملک کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حوالگی کی درخواستوں کے حوالے سے وزراء یا ججوں کی طرف سے کوئی کارروائی کرنے سے پہلے زبردست ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔
بی بی سی کے مطابق 21 جنوری تک اے سی سی ان دعوؤں کی تحقیقات کر رہا تھا کہ شیخ حسینہ اور ان کے خاندان نے مبینہ طور پر بنگلا دیش میں انفرااسٹرکچر کے اخراجات سے 3.9 بلین پاؤنڈ تک کا غبن کیا۔
یہ انکوائری شیخ حسینہ کے سیاسی حریف بوبی حجاج کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے سلسلے میں کی گئی ہے۔
بی بی سی کی طرف سے جائزہ لینے والی عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ حجاج نے ٹیولپ صدیق پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے 2013ء میں روس کے ساتھ ایک معاہدے میں سہولت فراہم کی تھی جس میں بنگلا دیش میں ایک نئے جوہری پاور پلانٹ کی لاگت میں اضافہ ہوا تھا، تاہم ٹیولپ صدیق کی قانونی ٹیم نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
مزید برآں ٹیولپ صدیق کا کہنا ہے کہ میں ڈھاکا میں اپنے بارے میں کسی سماعت سے لاعلم ہوں اور نہ ہی مجھے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کا علم ہے، میرے خلاف لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں، جن میں کوئی صداقت نہیں ہے، میرے پاس بنگلا دیش میں کوئی زمین نہیں ہے۔