’’اسی نے رات دن اور سورج چاند کو تمہارے تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے ماتحت ہیں یقیناً اس میں عقلمند لوگوں کے لیے کئی ایک نشانیاں موجود ہیں اور بھی بہت سی چیزیں طرح طرح کے رنگ روپ کی اس نے تمہارے لیے زمین پر پھیلا رکھی ہیں بے شک نصیحت قبول کرنے والوں کیلئے اس میں بڑی بھاری نشانی ہے‘‘
(القرآن ۔سورہ النحل۔آیت 13)
ہم نے جتنے خزانے 1947ءسے اس زمین کے نیچے دفن کیے ہیں اتنے خزانے اس زمین سے باہر نکالنے کی کوشش نہیں کی۔
یہ حقائق تو دنیا بھر کے ماہرین ارضیات کی رپورٹوں میں موجود ہیں کہ پاکستانی زمین کی مختلف تہوں میں، سر سبز کوہساروں، بنجر پہاڑوں کے سینوں میں بے حساب خزانے موجود ہیں ہماری توجہ ایک دوسرے کو گھسیٹ کر انکے پیٹوں سے خزانے برآمد کرنے پر زیادہ مرکوز رہی ہے یا ہم زمینیں بیچتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر قسم کی ارضیات سے نوازا ہے میدانی ریگستانی پہاڑی سطح مرتفع سمندری۔کیا کچھ نہیں ہے ہمارے پاس نمک کی کانیں کب سے ہمیں نمک کھلا رہی ہیں ہم ابھی تک انکا حق نمک ادا نہیں کر سکے۔ کوئلے کی کانیں انرجی دے رہی ہے۔ سونا اگلتی زمینوں پر بھی ہم اپنی محبت بھری توجہ مرکوز نہیں کر سکے، کتنے رقبے اب بھی کاشت کیلئے آواز دیتے ہیں ہم اچھی بھلی قابل کاشت زمینوں میں گندم چاول کپاس گنے کے بجائے پلازے اگا رہے ہیں۔
تاریخ کا یہ فرمان ہے کہ ریاستیں مجموعی طور پر ترقی کرتی ہیں پہلے اپنی ضرورتوں کا بڑھتی آبادی کے تناسب سے تعین کیا جاتا ہے اس کے مطابق اناج سبزیاں کپاس پھل کاشت کیے جاتے ہیں پھر دیکھا جاتا ہے کہ ہم کتنا اناج کتنی سبزیاں برآمد کر سکتے ہیں۔ پیشرفت صرف دفاعی نہیں، زرعی نہیں، صنعتی بھی، معدنیاتی بھی، خدماتی بھی علمی بھی ہوتی ہیںجو بھی ریاست کے ذمہ دار ہیں انہیں آئندہ 50/ 60 سال کے روڈ میپ بنانا ہوتے ہیں پلاننگ کمیشن اس کیلئے ماہرین سے یونیورسٹیوں تحقیقی اداروں سے تعاون حاصل کرتا ہے۔ نوجوانوں میں ایسے شعبوں میں تعلیم اور تربیت کیلئے آمادگی پیدا کی جاتی ہے کوئی ایک یونیورسٹی بلوچستان میں، کے پی کے میں، ایسی ہو جہاں صرف جیالوجی پڑھائی جائے۔ پاکستان کی زمین کی تہوں سے زمین کے خد و خال سے زمین کی نفسیات سے آشنا کیا جائے کوئی تحقیقی جرنل صرف ارضیات معدنی وسائل کے حوالے سے تحقیقی رپورٹیں شائع کریں ہمارے ڈاکٹریٹ کے مقالے بھی زمین کے حوالے سے ہی ہوں۔
زیر زمین خزانے ہمارے دونوں چھوٹے صوبوں کے پی کےاور بلوچستان میں دریافت شدہ ہیں۔ لیکن ان دونوں چھوٹے صوبوں کو ہم نے ناراض بھی کیا ہوا ہے۔ دھرنے ریلیاں لاپتہ نوجوان انہی دونوں خطوں میں ہیں کیونکہ مستقبل کی انرجی یعنی توانائی سونا تانبہ گیس قیمتی ہیرے انہی دونوں صوبوں میں ہیں سونا تانبہ تو ہے ہی لیکن بہت سی دوسری قیمتی دھاتیں یورینیم جپسم وغیرہ بھی قدم قدم پر انہی صوبوں میں ہیں۔
آج کل پھر معدنی وسائل موضوع سخن ہیں۔ نیتیں کیا ہیں یہ تو معلوم نہیں ایک ہوتی ہے حکومت، جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ایک ہوتی ہے ریاست مملکت، اس سے اختلاف ممکن نہیں۔ ہمارے یہاں شروع سے ہی حکومت اور ریاست کے تصور کو خلط ملط کیا گیا ہے۔ حکمران اپنے آپ کو ہی مملکت اور ریاست کہنے لگ جاتے ہیں۔ غداری کے سرٹیفیکیٹ فراخ دلی سے بانٹے جاتے ہیں۔ ہمارے عوام کی اکثریت جفا کش ہے صابر شاکر ہے وہ اپنے وسائل سے ہی بہت پرسکون زندگی گزارتے رہے ہیں معدنی وسائل بھی بے حساب ہیں لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی پاکستانی ریاست نے یا حکمرانوں نے ہر قسم کے وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی اندرونی ضروریات اور برآمدی امکانات کا حقیقی جائزہ لیا ہو۔
آج کل چھ ٹریلین ڈالر کا چرچا ہے لیکن عوام اور ریاست ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ اسلئے اتنی بڑی رقم عام لوگوں کے چہروں پر کوئی خوشی نہیں لا رہی۔
1985 ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بعد آنے والی حکومتوں نے تو ہمیں آئی ایم ایف کے قرضے کے جال میں ایسا پھنسایا ہے کہ عوام اور حکمرانوں نے اپنے وسائل کا سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 13جون 1948ءکو کوئٹہ میں پارسی برادری کے ایک وفد کے سپاس نامے کا جواب دیتے ہوئے انتہائی تاریخی ارادے ظاہر کیے تھے۔
’’جہاں تک بلوچستان کی ترقی کی صلاحیت کا تعلق ہے آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے میرے پاس اس سلسلے میں بہت سی اطلاعات موجود ہیں اور ہم لوگ اس معاملے کا بھی جائزہ لے رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی معدنی دولت، اس کی زراعت آب رسانی اور مواصلات کے وسائل کی ترقی کے زبردست امکانات ہیں‘‘
بانی پاکستان نے 76سال پہلے اس بلوچستان کی معدنی دولت کا تذکرہ کیا ہے۔ قائد اعظم کے افکار فرامین اور نظریات کے بارے میں جذباتی طور پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن کیا کسی ادارے نے، کسی یونیورسٹی نے قائد اعظم کے اقتصادی معاشی اور معدنی تصورات کے حوالے سے بھی کوئی تحقیق کی۔
بلوچستان کے علاقے سینڈک میں برسوں سے سونا تانبہ نکل رہا ہے لیکن یہ سارا خام مال چین لے کر جا رہا ہے۔ ہم نے کوئی ریفائنری نہیں بنائی اور نہ ہی تحقیق کی جاتی ہے کہ یہاں سے کیا کچھ برآمد ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں ہی ریکوڈک کے ذخائر ہمارے لیے خوشحالی کا سبب بننے کے بجائے پانچ بلین ڈالر جرمانے کا باعث بن گئے، ہم ابھی تک ریکوڈک سے ایک اونس سونا بھی نہیں نکال سکے اس سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ معدنی وسائل سے ہماری رغبت کس حد تک ہے۔عالمی تحقیقاتی رپورٹیں بلوچستان کے پی کے سابقہ قبائلی علاقوں کو مستقبل کی انرجی اور انسانی خوشحالی کی پٹی بتاتی ہیں۔ خوش بختی کی شیریں ہم سے کہتی رہتی ہے کہ اپنا تیشہ اٹھاؤ۔ دودھ کی نہریں لاؤ۔ فرہاد موجود ہیں لیکن انہیں تیشہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔
یہ زمیں خود تو وسائل نہیں اگلے گی کبھی
ہے جو شیریں کی طلب تیشہ اٹھائیں ہم لوگ
ہمارے حکمران تو کوشش کرتے ہیں کہ شیریں بھی آئی ایم ایف کے پروگرام کے ذریعے ہی مل جائے۔
ریاستی اداروں حکمرانوں سیاسی پارٹیوں کی یہ غفلت یہ بے حسی اور رویے اپنی جگہ لیکن ہماری یونیورسٹیوں تحقیقی اداروں میں بھی خود کفالت اور خود انحصاری کے رحجانات نہیں ہیں۔ ایسے خواب دیکھنے والے ترک وطن کر کے جاتے رہتے ہیں۔ اب اگر معدنی وسائل کا تذکرہ ہو رہا ہے تو بہت خوش آئند ہے۔ حکمرانوں کی نیت پر شک و شبہ اپنی جگہ لیکن ہمارے میڈیا، ہماری جامعات کو چاہیے معدنیات سمیت تمام وسائل پر تحقیق کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے واہگہ سے گوادر تک ہر قسم کے زمینی پھیلاؤ میں جو طرح طرح کی رنگ و روپ کی چیزیں پھیلائی ہیں وہ 77سال سے ہماری راہ تک رہی ہیں۔ نیتیں درست کر لیں تو منزلیں مل جائیں گی۔