پچھلے ہفتے معروف شاعر عباس تابش کی تنظیم ’’عشق آباد‘‘ نے فیصل آباد ادبی فیسٹیول کا انعقاد کیا، مشاعرے سے پہلے ہم مشاعرہ گاہ کے عقب میں بیٹھے تھے، مغرب کا وقت ہوا تو ایک صاحب نے احباب سے قبلے کا رُخ دریافت کیا، ایک ’’ملامتی‘‘ شاعر نے فوراً قرآن مجید کی ایک آیت پڑھی جس کا مفہوم تھا کہ ’’جس طرف بھی تم رُخ کرو گے، اُسی طرف اللہ کا رُخ ہے۔‘‘ یعنی موصوف فتویٰ دے رہے تھے کہ کسی بھی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لو کیوں کہ خدا تو ہر طرف اور ہر سمت میں پایا جاتا ہے۔ دوست کو فتویٰ پسند آیا، وہ جس صوفے پر بیٹھے تھے انہوں نے وہیں نیت باندھ لی، وہ فرض نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو افتخار عارف صاحب تشریف لے آئے، سب نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا، دوبارہ بیٹھے تو نمازی دوست کو کہیں اور نشست ملی، اب انہوں نے سنتوں کی نیت کی تو اُن کا رُخ کسی اور سمت ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
ہمارے ایک انتہائی غیر مقبول وزیرِ اعظم کی حکومت کو ختم ہوئے تین برس بیت چکے ہیں، اور لگ بھگ اتنا ہی عرصہ انہیں مقبول ہوئے بھی گزر چکا ہے، اور دو سال تو اب وہ پسِ زنداں بھی گزار بیٹھے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے ہر سمت میں رُخ کر کے ’’سیاسی نمازیں‘‘ ادا کی ہیں، کبھی مشرق کبھی مغرب اور کبھی شمال و جنوب، کبھی باجوہ صاحب کو گالی دی، کبھی انہیں توسیع کی دعائیں دیں، کبھی سینے پر نو مئی کے ’’کارنامے‘‘ کا تمغہ سجایا، کبھی نومئی کو اغیار کی سازش قرار دیا، کبھی لشکر کشی کا حکم دیا، کبھی مذاکرات کا عندیہ دیا، کبھی سوشل میڈیا پر اپنے حواریوں کی دشنام طرازی کو اپنے احکامات کی بجا آوری قرار دیا، کبھی حکم عدولی ٹھہرایا، کبھی حافظ صاحب کی تعیناتی رکوانے کیلئے جلوس نکالے، کبھی ان سے راہ و رسم استوار کرنے کی خواہش کی، کبھی ہم وطنوں سے توقع باندھی، کبھی انکل سام سے، ’’تحویلِ قبلہ‘‘ کی اس داستان کا کوئی انت نہیں ہے۔ اوپر مذکور دوست کی نماز تو خدا جانے قبول ہوئی کہ نہیں، عمران خان کے بارے میں ہم تیقن سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی کو ئی سیاسی نماز تا دمِ تحریر مقبول نہیں ہو سکی۔
کہتے ہیں انسان اپنا سب سے بڑا دشمن خود ہوتا ہے، اجتماعی سطح پر ماحولیات سے نیو کلیئر ہتھیاروں اور نت نئی جنگوں تک اس دماغی کیفیت کی درجنوں مثالیں دی جاتی ہیں۔ فرد کا بھی یہی معاملہ بتایا جاتا ہے، نفسیات دانوں اور فلسفیوں نے تخریبِ ذات کی اس خواہش کو کئی زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی ہے، کبھی فرد اپنے لیے ایسے اہداف منتخب کر لیتا ہے جو اس کی صلاحیت اور طاقت سے زیادہ ہوتے ہیں، اور کبھی (بہ قول نطشے) فرد کی ذاتی خواہشات اور معاشرے کی توقعات کا ٹکراؤ ایسے رویوں کو جنم دیتا ہے جو فرد کی ناکامی اور تباہی کا جامع نسخہ ثابت ہوتے ہیں۔ پہلے ہمیں اس بحث میں تیقن حاصل نہیں تھا، ہم عمران خان صاحب کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمیں انشراحِ صدر عطا کیا۔ عمران خان مسلسل، بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں جیل سے رہائی نہ ملے ، اگر کسی طاقت ور شخص کو ان کی رہائی کا خیال بھی آئے تو وہ لا حول ولا کا ورد کرنے لگے، اگر ہمارے کان میں کوئی ’’اندر کی بات‘‘ بتائے کہ صیاد کی دِلی خواہش ہے کہ مرغِ بسمل کو آزاد کر دیا جائے، تو ہم دو جمع دو کریں گے، اور اس اطلاع پر یقین کر لیں گے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ عمران خان نے اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا، انہوں نے زمین پر گرنے کے بعد، بے شمشیر و بے سپر ہونے کے بعد اپنے مخالف کو للکارنا شروع کر دیا، انسانی تاریخ میں رہا ہونے کا یہ طریقہ نہ کبھی جنگوں میں کام یاب ہوا نہ سیاست میں۔ پچھڑے ہوؤں کی رہائی کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے،سقوطِ غرناطہ کے وقت جنگ ہارے ہوئے بو عبدل سے لے کر نواز شریف تک، ایک ہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور رہائی حاصل کی جاتی ہے، یعنی بدلے کی دھمکیاں نہیں دی جاتیں، کچھ شرائط تسلیم کی جاتی ہیں، کوئی رستہ نکالا جاتا ہے۔ پھر حالات بدلنے کا نتظار کیا جاتا ہے، دوبارہ قوت اکٹھی کی جاتی ہے، اور نئی تدبیر آغاز کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ خاموشی کی شرط، کچھ عرصہ بعد توڑی بھی جا سکتی ہے، ایک فریق کی کم زوری کی بنیاد پر کیا ہوا معاہدہ توڑ دینے کے حق میں دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں، نواز شریف نے بھی حالات سازگار ہوتے ہی سیاست سے دس سال علاحدہ رہنے کا معاہدہ توڑ دیاتھا، اور ان کے حامیوں نے اسے بہترین حکمتِ عملی قرار دیا تھا۔ عمران خان کی تخریبِ ذات کی خواہش تو عثمان بزدار کی تعیناتی سے ہی عیاں ہو گئی تھی، لیکن جب انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنی صوبائی حکومتیں کھلونوں کی طرح توڑنا شروع کیں تو شک گہرا ہونے لگا، اور پھر نو مئی نے توہر شک رفع کر دیا۔ بلا شبہ، وہ خود اپنی دشمنی میں حد سے آگے نکل چکے ہیں۔ ان کا ایک اور شوق بھی کامن سینس کی توہین محسوس ہوتا ہے، اور وہ ہے چومکھی لڑائی کا شوق۔ ہم سب نے کچی جماعت میں سیکھا تھا کہ اپنے سب دشمنوں سے ایک ہی وقت میں لڑائی نہیں شروع کر دیا کرتے۔ عمران خان اداروں سے، سیاست دانوں سے، حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے طاقت ور ممالک سے بہ یک وقت پنجہ آزمائی کر رہے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے ہرجائی صفت اداروں کا ماضی گواہ ہے کہ اگر عمران خان نے متوازن رویہ اختیار کیا ہوتا تو شاید اب تک اُن کی ’’باری‘‘ آ چکی ہوتی۔
جب ہیرو کے نقصِ غم انگیز کا ذکر آتا ہے تو شیکسپیئر کے کئی کردار یاد آتے ہیں۔مثلاً، رچرڈ دوئم کہتا ہے:
"I wasted time, and now doth time waste me"
(میں نے وقت ضائع کیا، اور اب وقت مجھے ضائع کر رہا ہے)