• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: (1) معلوم یہ کرنا ہے: زندگی میں اپنا مال اپنی اولاد (بیٹے اور بیٹیوں) کے درمیان کس طرح تقسیم کرنا چاہیے، کسی کو کم یا زیادہ دے سکتے ہیں اور بیٹے، بیٹی کے حصے میں کیا فرق ہوگا ؟۔ اپنی زندگی میں کسی اولاد کو جائداد کے کسی حصے پر باقاعدہ رجسٹری کرواکر قبضہ دے دیا، اس اولاد نے آگے اس جائداد کو فروخت بھی کردیا، تو کیا دوسرے بیٹے، بیٹیاں اس سے اس فروخت شدہ جائداد میں حصے کا تقاضا کرسکتے ہیں، (سید علی اکبر شاہ راشدی، کراچی)

جواب: اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے، تو تمام اولاد یعنی بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان مساوات برتے، سب کو برابر برابر دے، کیونکہ زندگی میں جو مال تقسیم کیا جائے، وہ ہبہ (Gift) کہلاتا ہے اور ہبہ میں اولاد کے درمیان مساوات کا حکم ہے اولاد میں سے کسی کو مالی کمزوری، جسمانی معذوری ، فرمانبرداری یا اُس کی دین داری کی وجہ سے باقی اولاد سے زیادہ دینا چاہیں، تو دے سکتے ہیں۔

علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: اگر کوئی اپنی صحت کے عالم میں اپنی اولاد کو کچھ ہبہ کرے اور اس میں بعض کو بعض پر ترجیح دینا چاہے، ہمارے اصحاب سے’’ اصل‘‘(یعنی مبسوط) میں اس کی بابت کوئی روایت منقول نہیں ہے اور امام ابو حنیفہؒ سے روایت ہے : اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، جبکہ ترجیح کا سبب اس کی دین داری میں فضیلت ہو اور اگر دونوں (یا سب )دین داری میں برابر ہوں تو پھر کسی کو ترجیح دینا مکروہ ہے ۔ 

’المعلّیٰ‘ نے امام ابو یوسفؒ سے روایت کیا ہے: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جب مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہ ہو اور اگر کسی کو نقصان پہنچانا مقصود ہے تو پھر سب کو مساوی دے، بیٹی کو وہی دے جو بیٹے کو دیتا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے اور ’’فتاویٰ قاضی خان ‘‘میں بھی اسی طرح ہے اور یہی مختار ہے اور’’ ظہیریہ ‘‘میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد 4)‘‘ ۔

فتاوٰی عالمگیری کی اس عبارت کی رو سے اولاد کے درمیان ہبہ کرتے وقت دین داری اورتقویٰ کی بنا پر اولاد میں سے کسی ایک کو باقی اولاد پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔ اگر اپنی زندگی میں کسی شخص نے اپنی جائداد میں سے کچھ کسی وارث کو ہبہ کردی اور قبضہ بھی دیدیا ، تو یہ ہبہ نافذ ہوجائے گا اور موہوب لہٗ اُس موہوبہ شے کا مالک بن جائے گا، کسی دوسرے وارث کو اُس سے اُس مال میں سے حصہ دینے کا تقاضا کرنے کا حق حاصل نہیں، لیکن اگر واہب (ہبہ کرنے والے) نے اولاد کے درمیان مساوات نہیں برتی یاکسی وارث کو محروم رکھا تھا، تو یہ ظلم ہے اور اس کا اُخروی وبال واہب کے ذمے ہوگا، البتہ اگر کسی اولاد کو مالی کمزوری، جسمانی معذوری ، فرمانبرداری یا اُس کی دین داری کی وجہ سے باقی اولاد سے زیادہ دیا ہے، تو اس کا یہ عمل قابلِ مؤاخذہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ سے کرم کی اُمید ہے۔

سوال: (2) کیا کسی اولاد کو اُس کی نافرمانی کے سبب جائیداد سے محروم کیاجاسکتا ہے ؟

جواب: ترکے کے مال پر وراثت کے احکام قرآن کا ثابت شدہ قانون ہے اور اس کے ردّ کرنے یا اس میں ردّوبدل کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے، شرعاً اولاد کو وراثت سے محروم کرنے کا اختیار والدین کو حاصل ہی نہیں ہے، کیونکہ وراثت یا ترکہ اس مال کو کہتے ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات کے وقت چھوڑ جاتا ہے۔ 

نافرمانی کے سبب اولاد کو جائیداد میں حصہ ملنے سے محروم یا عاق نہیں کیا جاسکتا، شرعی سبب کے بغیر وارث کو محروم کرنے پر حدیث پاک میں سخت وعید آئی ہے:’’جو شخص اپنے وارث کو میراث (پہنچنے سے ) راہِ فرار اختیار کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی میراث جنت سے قطع کردے گا، (سنن ابن ما جہ :2703)‘‘۔

البتہ اگر اولاد فاسق ہے، کسی نشے یا بری لت میں مبتلا ہے کہ اُس کے مال کو ضائع کردے گی، تو اُسے ضرورت سے زیادہ نہ دے تاکہ معصیت میں اعانت کا سبب نہ بنے، علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ’’ اگر اس کی اولاد میں کوئی (بیٹا) فاسق ہے، تو اس کی قوت (یاضرورت) سے زیادہ نہ دے تاکہ معصیت میں اعانت کا سبب نہ بنے ، ’’خزانۃ المُفتین‘‘ میں اسی طرح ہے ۔اور اگر اس کا بیٹا فاسق ہے اور وہ اپنے مال کو نیکی کے کاموں میں صرف کرنا چاہتا ہے، تو مال چھوڑ کر جانے سے ایسی فاسق اولاد کو وراثت سے محروم کردینا بہتر ہے، جیسا کہ ’’خلاصۃ الفتاویٰ ‘‘ میں ہے ،(فتاویٰ عالمگیری، جلد4، ص:391)‘‘۔

اس عبارت کا ماحصل یہی ہے کہ کوئی مُورِث فاسق، نافرمان اور عیاش واوباش کے لیے مال وراثت چھوڑنے کے بجائے اپنی زندگی میں خیر کے کاموں میں صرف کرنے کو ترجیح دے، مگر اگر وہ مال چھوڑ کرگیا ہے اور کسی وارث کو وراثت سے محروم کرنے کی وصیت کی ہے، تو وہ وصیت نافذ العمل نہیں ہوگی۔

سوال: (3)وصیت کا شرعی حکم کیا ہے ، کیا اولاد کے لیے مال میں کوئی وصیت کی جاسکتی ہے ؟

جواب: مُورِث کو وفات سے پہلے اپنے جمع شدہ مال میں زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال پر وصیت کے ذریعے تصرف کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ وہ وفات سے پہلے اپنی زندگی میں ایسی وصیت کرچکا ہو، لیکن وصیت میں بھی شرط یہ ہے کہ کسی وارث کے حق میں نہ ہو۔ 

رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ نے (احکامِ وراثت میں) ہر وارث کو اُس کا حق دیدیا ہے، پس وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے، (کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقررہ قانونِ وراثت کو بدلنا ہے)، (سنن ترمذی: 2120)‘‘۔

اقراء سے مزید