انسانی حقوق پر سینٹ کی سب کمیٹی نے سینٹر علی ظفر کی سربراہی میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس میں اقلیتو ں کو آئین میں دیے گئے حقوق کی نگرانی نیز اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کمیشن قائم کرنے کی تجویز ہے۔ گیارہ برس پہلے 19جون 2014کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (تب) تصدق حسین جیلانی نے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے ضمن میں ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا۔ سینٹ کی سب کمیٹی نے اسی فیصلے کی روشنی میں مذکورہ مسودہ قانون منظور کیا ہے۔ اب یہ مسودہ ایوان بالا میں پیش ہو گا جہاں منظوری کی صورت میں اسے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ یہ منزل سر کر لی گئی تو انتظار ہو گا کہ اگر صدر مملکت اس قانون کو اپنے دستخط سے سرفراز فرمائیں تو یہ کمیشن قائم ہو جائے گا۔ اختر شیرانی یاد آ گئے۔ ’مری شام غم کو وہ بہلا رہے ہیں/ لکھا ہے یہ خط میں کہ ہم آرہے ہیں‘۔ اس دوران ہمارے قدیمی مہربان محترم مفتی منیب الرحمن نے کراچی میں بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ’مسافران رہ صحرائے ظلمت شب‘ پر شفقت کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ دستور پاکستان سے اقلیت کا لفظ حذف کر دیا جائے۔ اس کی بجائے ’مسلم پاکستانی‘ اور ’غیر مسلم پاکستانی‘ کی اصطلاحات استعمال کی جائیں۔اسے کہتے ہیں ’کھڑا کھیل فرخ آبادی‘۔ مفتی صاحب نے پاکستان کے نوے لاکھ غیر مسلم شہریوں پر یہ احسان بھی جتایا کہ انہیں پاکستان کی پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں عطا کی گئی ہیں۔ یہ سہولت تو بھارت اور امریکا جیسے ممالک میں بھی اقلیتوں کو نصیب نہیں۔
مفتی منیب الرحمن اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری ہیں۔ تاہم آئینی اور سیاسی امور پر ان کی گرفت کمزور معلوم ہوتی ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اقلیت یا اکثریت شہریت کا درجہ نہیں بلکہ شناخت کے مختلف حوالوں سے قومی ریاست میں مختلف گروہوں کا عددی تناسب بیان کرنے کا ڈھنگ ہے۔ ہمارے ملک میں مخصوص تاریخی تناظر میں اقلیت سے صرف مذہبی شناخت مراد لی جاتی ہے۔ بین الاقوامی قانون میں اقلیت کی اصطلاح لسانی، ثقافتی اور نسلی گروہوں پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ ہر انسان بیک وقت شناخت کے بہت سے حوالے رکھتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ لسانی اعتبار سے اکثریتی گروہ کا کوئی فرد مذہبی اعتبار سے اقلیت میں ہو ۔ جیسے پنجاب میں مقیم کوئی مسیحی خاتون یا سکھ مرد مذہب کے اعتبار سے اقلیت اور زبان کے اعتبار سے اکثریت کا حصہ شمار ہوں گے۔ درحقیقت ہر شہری شناخت کے کسی زاویے سے اقلیت اور کسی دوسرے پہلو سے اکثریتی حیثیت رکھ سکتا ہے۔ قومی ریاست میں بنیادی اصول ہر شہری کے لیے حقوق، رتبے اور احترام میں مساوات ہے۔ دستور پاکستان کی شق 25 کا عنوان ہی ’شہریت کی مساوات‘ ہے۔ گویا ہر شہری کو امتیازی سلوک سے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ دستور کی شق 20نہایت صراحت سے مذہبی آزادی کو ہر شہری کا انفرادی حق قرار دیتی ہے۔ عقیدہ فرد کے ضمیر کا فیصلہ ہے اور اس پر فرد ہی کوتسلیم یا استرداد کا اختیار ہے۔ عقیدے کی آزادی اجتماعی حق نہیں۔ جان الیگزینڈر ملک یا مفتی منیب الرحمن کسی دوسرے شہری کے عقیدے کی نمائندگی نہیں کر سکتے سوائے ان شہریوں کے جو رضاکارانہ طور پر ہر دو مذہبی رہنماؤں میں سے کسی ایک کی اطاعت کا فیصلہ کریں۔ تقسیم ہند کے ذیلی مسائل میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ بھی شامل تھا۔ اپریل 1950میں لیاقت علی خان اور جواہر لال نہرو نے پاکستان اور ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق کے ضمن میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ مقام افسوس ہے کہ دونوں ممالک کا موجودہ سیاسی بندوبست اس معاہدے سے مکمل انحراف ہے۔ پاکستان میں ابتدا ہی سے مطالبات شروع ہو گئے کہ فلاں گروہ کو اقلیت قرار دیا جائے۔ گویا اقلیت کا تعین کسی گروہ کے عددی حجم کی بجائے ریاستی فرمان سے طے پائے گا۔ نیز یہ کہ اقلیتی گروہ سے تعلق ہونا تادیب، محرومی یا استخراج کا اجازت نامہ ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشروں میںہم یہاں تک پہنچے کہ وسیع تر تناظر میں مسلم کہلانے والے گروہوں میں باہم فرقہ وارانہ قتل و غارت نے ہزاروں جانوں کا تاوان لیا اور یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ مفتی منیب الرحمن کو شاید استحضار نہیں ہو رہا کہ 1916 ء کے میثاق لکھنؤ میں جداگانہ انتخاب اور مخصوص نشستوں کا سوال ہندوستان کے مذہبی گروہوں کے تناسب سے تعلق رکھتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جداگانہ یا مخلوط انتخاب کے سوال نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں اس آئینی کشمکش کو جنم دیا جو بالآخر دسمبر 1971ء پر منتج ہوئی۔ ’آخر کو آج اپنے لہو پہ ہوئی تمام / بازی میان خنجر وقاتل لگی ہوئی‘۔ دستور پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا تصور ہی اس لیے شامل کیا گیا کہ مجموعی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال میں اقلیتوں کے لیے کھلے مقابلے میں نمائندگی حاصل کرنا دشوار تھا۔ جسے مفتی منیب عنایت خسروانہ سمجھتے ہیں وہ دراصل امتیازی سلوک اور تعصب کی زمینی حقیقت کا اقرار ہے۔ قائداعظم کا دستور ساز اسمبلی میں 11اگست 1947ء کو کیا گیا خطاب کچھ نازک طبع احباب پرگراں گزرتا ہے۔ تو آج آل انڈیا مسلم لیگ کے 28ویں سالانہ اجلاس کی طرف چلتے ہیں۔ 12 ۔15 اپریل 1941ء کو مدراس میں منعقدہ اس اجلاس میں حصول پاکستان کو مسلم لیگ کا بنیادی مطالبہ قرار دیا گیا تھا۔ اجلاس کے اختتام پر لیاقت علی خان کی پیش کردہ تین نکاتی قرارداد کا دوسرا نکتہ حاضر خدمت ہے۔
That adequate, effective and mandatory safegaurds shall be specially provided in the constitution for minoritites in the above mentioned units and regions for protection of their religious, cultural, economic, political, administrative and other rights and interests in consultation with them.
اردو ترجمے کیلئے کالم میں گنجائش نہیں۔ شریف الدین پیرزادہ نے تین جلدوں میں مسلم لیگ کی دستاویزی تاریخ مرتب کی ہے۔ حوالے کیلئے اس کی جلد دوم کا صفحہ 372دیکھ لیجئے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل حقوق، مراعات اور تحفظ پر ذیل کا حرف تشکر قبول فرمائیے
چپ ہو گئے ترے رونے والے
دنیا کا خیال آ گیا ہے