مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مصر کے شہر حلوان میں اور ایک قول کے مطابق مدینۂ منورہ میں 61ہجری میں پیدا ہوئے، آپ کا سلسلہ نسب خلیفۂ دوم سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے، آپ کا ننھیال مدینہ منورہ میں ہی آباد تھا، جس زمانے میں ان کی والدہ مدینہ میں قیام پذیر تھیں، یہ عمربن عبدالعزیزؒ کے بچپن کا زمانہ تھا، بچپن میں عمر بن عبدالعزیزؒ کی آمد و رفت حضر ت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بکثرت رہتی تھی، بعدازاں عمربن عبدالعزیزؒ مصر چلے گئے اور وہاں ایک مدت تک رہے۔
پھر مدینہ آمد ہوئی اور وہاں بعض صحابۂ کرامؓ اور اکابر تابعین ؒسے علوم کی تحصیل کی اور رسول اللہ ﷺکی احادیث نقل فرمائیں۔ بیس سال کی عمر کو پہنچے تو آپ کے چچا خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنی صاحبزادی فاطمہ کو آپ کے عقد زواج میں دے دیا، ربیع الاول 87ہجری میں ولید بن عبدالملک کی خلافت کے زمانے میں آپ کو مدینہ طیبہ کا حاکم مقرر کیا گیا، آپ نے اس عرصے میں مسجد نبوی ؐ کی توسیع کا کام کیا اور ازواج مطہراتؓ کے حجرے مسجد نبویؐ میں شامل کیے گئے، نیز مدینہ کے اطراف کی مساجد کو منقش پتھروں سے تعمیر کرایا۔
اسی زمانے میں حضرت انس بن مالکؓ عراق سے مدینہ تشریف لائے، انہوں نے عمربن عبدالعزیزؒ کو نماز ادا کرتے دیکھا اور عمربن عبدالعزیزؒ کی کیفیت اتنی پسند آئی کہ حضرت انسؓ نے لوگوں سے فرمایا: رسول اللہ ﷺکے بعد میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز آنحضرت ﷺکی نماز سے اتنی مشابہت رکھتی ہو جتنی کہ تمہارے اس امام کی۔ ایک جلیل القدر اور رسول اللہ ﷺکے خادم خاص صحابی کی جانب سے یہ بہت بڑی شہادت ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں، جن کی خلافت نے خلافتِ راشدہ کا نمونہ پیش کیا، اور جن کے عدل و انصاف کی نظیر بعد کے زمانوں میں نہیں ملتی، تاریخ اسلام کے یہ روشن اور بلند کردار تاریخ عالم میں ہمیشہ سربلند رہیں گے، ان کا نام ان شاء اللہ تاقیامت بلند اور روشن رہے گا، ان کی عظمتیں مسلمانوں کے قلوب سے ختم نہیں ہوسکتیں۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے خلافت کا بار اٹھاتے ہی جو فوری فیصلے فرمائے، وہ عدل و انصاف کے قیام کے فیصلے تھے، انہوں نے ابتدائی فرامین میں ہی بعض ایسے لوگوں کو معزول کیا جنہوں نے عوام پر ظلم و ستم ڈھائے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی بقاء اور عوامی دلوں پر حکمرانی عدل و انصاف کے ساتھ مربوط ہے۔
آپ نے خلیفہ مقر ر ہوتے ہی زہد وقناعت کی زندگی اختیار کی اور انواع واقسام کے کھانے اور مشروبات یکسر ترک کردیے، آپ کے لیے عام رعایا کے کھانوں کی مانند کھانا تیار ہوتا اور کسی چیز میں ڈھک کر رکھ دیا جاتا، جب مصروفیات سے فارغ ہوتے تو خود ہی تناول فرماتے، اس سے زیادہ کوئی اہتمام نہ ہوتا۔
بیت المال سے جو وظیفہ ایک عام آدمی کو ملتا، وہی عمربن عبدالعزیزؒ نے اپنے لیے بھی اختیار کیا، اس سے زیادہ کچھ نہ لیتے، بیت المال کو تمام رعایا کا حق سمجھتے اور ذرہ برابر اس کی اشیاء کو اپنے استعمال میں لانے کے حق میں نہ تھے، حتیٰ کہ بیت المال کی خوشبو سونگھنے کو بھی پسند نہ کرتے تھے۔
آپ کی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک فرماتی تھیں، میں نے عمربن عبدالعزیزؒ سے زیادہ کسی کو اللہ کے خوف سے کانپتے نہیں دیکھا، جب وہ اپنے بستر پر اللہ کی یاد میں مصروف ہوتے تو چڑیا کی طرح پھڑپھڑانے لگتے، یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوتا کہ ان کا دم گھٹ جائے گا۔
سادگی کا یہ حال تھا کہ ایک ہی کُرتا استعمال کرتے، ایک دن جمعہ کی نماز کے لیے ذرہ دیر ہوگئی، لوگوں نے اعتراض کیا تو عمربن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: میں نے اپنی قمیص دھوئی تھی، اس کے سوا کوئی کپڑا موجود نہ تھا اور اس کے سوکھنے کے انتظار میں مجھے دیر ہوگئی۔
آپ نے جو حالت اپنے لیے پسند کی، وہی اپنے گھرانےا ور اپنی اولاد کے لیے پسند کی، اور خلیفہ وقت ہونے کے باوجود اپنی اولاد اور گھرانے کوان کے حق سے زیادہ کچھ نہیں دیا، مسلمانوں کے اموال سے جس طرح خود دور رہے ،اپنے اہل وعیال کو بھی دور رکھا، زہد وقناعت خود اختیار کی اور گھرانے کو بھی اسی کی تعلیم دی، ان کی صاحبزادیوں سے متعلق ایک عجیب واقعہ ان کی سیرت میں لکھا گیا ہے کہ ایک رات عشاء کے بعد اپنی صاحبزادیوں سے ملاقات کے لیے پہنچے، انہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور دروازے کی جانب لپکیں، عمر بن عبدالعزیزؒ نے وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ شام کے کھانے میں مسور کی دال اور پیاز کے سوا کچھ نہ تھا، اسی سے انہوں نے اپنا پیٹ بھرا ہے، انہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ ان کے منہ کی بو والد محسوس کریں، حضرت عمربن عبدالعزیزؒ رو پڑے اور فرمایا: میری بیٹیوں! تمہیں اس سے کیا نفع ہوگا کہ تم رنگارنگ کے کھانے کھاؤ اور تمہاے باپ کو پکڑ کر دوزخ میں لے جایا جائے۔
یہ کہہ کر عمربن عبدالعزیزؒ واپس پلٹے اور صاحبزادیوں کی روتے روتے چیخیں نکل گئیں۔آپ کی ایک صاحبزادی نے ایک بار آپ کے پاس ایک موتی بھیجا اور کہا کہ اس کے ساتھ کا ایک اور موتی اگر بیت المال سے مل جائے تو مجھے دے دیں، میں اپنے کانوں میں پہن لوں، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس فرمائش کو دیکھا تو دو انگارے بھیج دیئے اور فرمایا اگر انہیں کانوں میں پہن سکتی ہو تو دوسرا موتی بھیج دوں گا۔ اندازہ کیجیے کہ خلیفہ وقت بیت المال سے اپنی صاحبزادی کو ایک موتی بغیرحق کے دینے کو تیار نہیں ہیں۔
خلافت کے امور میں عمربن عبدالعزیزؒ کے تین معاون اور مددگار تھے ، ایک آپ کے بھائی سہل بن عبدالعزیز،دوسرے آپ کے صاحبزادے عبدالملک بن عمربن عبدالعزیزؒ اور تیسرے آپ کے خادم مزاحم، ان تینوں کا انتقال آپ کی حیات میں ہوگیا، اور آپ ان کے انتقال سے سخت مغموم ہوئے، کچھ ہی عرصہ ہواتھا کہ آپ مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو اللہ سے عافیت کی موت کی دعا کی، مرض الوفات میں اپنے نوعمر بچوں کو بلایا، انہیں دیکھ کر عمربن عبدالعزیزؒ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا: میں قربان جاؤں، یہ بے چارے نوعمر ہیں، جنہیں خالی ہاتھ چھوڑ کر جارہا ہوں، لیکن میرے بیٹو! میں تمہارے لیے بہت سی خیر چھوڑ کر جارہا ہوں، میں دوراہے پر کھڑا تھا، یا تم مالدار ہوجاتے (یعنی ناجائز دولت تمہارے لیے اکٹھی کی جاتی )اور میں جہنم کا ایندھن بن جاتا، یاتم ہمیشہ کے لیے فقیر وقلاش ہوجاتے اور میں جنت میں چلاجاتا،میرے خیال میں میرے لیے یہی دوسرا راستہ بہتر تھا، جاؤ! اللہ تمہارا حافظ و نگہبان ہو، جاؤ! اللہ تمہیں رزق دے گا۔
چنانچہ عمربن عبدالعزیزؒ نے ترکے میں فقط سترہ دینار چھوڑے، جن میں سے سات دینار کفن دفن میں خرچ ہوئے اور دس دینار اولاد میں تقسیم ہوئے، لیکن اللہ نے عمربن عبدالعزیزؒ کے زہد وقناعت، اولاد کے لیے حلال روزی کی دعا اور جذبے کی ایسی لاج رکھی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی اولاد میں سے ایک شخص ایک دن میں اللہ کے راستے میں سو گھوڑوں کا عطیہ دیتا ہوا دیکھا گیا اور جن لوگوں نے اقتدار کے زمانے میں لوگوں کا حق اپنی اولاد کے لیے سمیٹا، وہ ایسے لاچار ہوئے کہ ان کی اولاد کو لوگ غربت کی وجہ سے صدقہ دیا کرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ دو سال چار ماہ اور چند دن خلیفہ رہے، رجب 101 ہجری میں آپ کا وصال ہوا۔ آپ نے فقط چالیس سال کی عمر پائی۔ آپ نے اپنی خلافت کے زمانے میں ظلم وستم کا خاتمہ کیا، اللہ کی زمین کو عدل وانصاف سے بھردیا، تمام لوگوں کو ان کے حقوق مکمل طور پر دیئے، عوام کو اور حکام کو کتاب وسنت کی پابندی کا حکم دیا۔ بیت المال سے مقروضوں کے قرض، کنواروں کی شادی، اور ذمیوں کی دیکھ بھال میں اموال خرچ کرنے کا حکم دیا۔
ہر شخص ان کی خلافت کے زمانے میں اتنا خوشحال ہوگیا تھا کہ صدقہ وزکوٰۃ لینے والا ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتا تھا، آپ کی خلافت کے زمانے میں یحییٰ بن سعید افریقہ گئے، وہاں صدقات وصول کرکے فقراء پر تقسیم کرنے کے لیے انہیں تلاش کرنا شروع کیا، لیکن کوئی شخص صدقہ لینے والا نہ مل سکا، بالآخر اس رقم سے غلام خرید کر آزاد کیے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اسلامی تاریخ کے مایہ ناز خلیفہ، عادل و منصف حاکم اور خداترس انسان تھے، ان کی محبت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، اور ان کا ذکر خیر ہمارے لیے رحمتوں، سعادتوں، برکتوں اور فلاح کا باعث ہے۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے تھے: جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جس کے دل میں عمر بن عبدالعزیز ؒ سے محبت کا جذبہ موجود ہو، اور ساتھ ساتھ وہ شخص عمر بن عبدالعزیزؒ کی اچھائیاں اور خوبیاں بیان کرتا ہوتو ایسے شخص کے بارے میں یقین کرلو کہ اس کا انجام خیر وبرکت والا ہوگا۔