تفہیم المسائل
سوال: دو حقیقی بہنوں کی اولاد ایک کا بیٹا اور ایک کی بیٹی ہے، دونوں کے درمیان روابط قائم ہوئے اور لڑکی والدین کو بتائے بغیر لڑکے کے گھر آئی لڑکے کے والدین نے خفیہ طور پر ان کا نکاح کرادیا، لڑکی کے والدین سخت اذیت میں ہیں اور اس نکاح کو تسلیم نہیں کرتے، کیا یہ خفیہ نکاح جائز ہے ؟ (ایک سائل، اسلام آباد)
جواب: نکاح دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ایک مجلس میں ایجاب وقبول سے منعقد ہوتا ہے، علّامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر الفرغانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’نکاح ایجاب وقبول سے منعقد ہوجاتا ہے، (ہدایہ، جلد3،ص:3)‘‘۔
مجلسِ نکاح میں دو مسلمان عاقل بالغ گواہ مردوں (یا ایک مرد اور دو عورتوں) کا ایک ساتھ موجود ہونا اور گواہوں کا اُسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے، علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکر الفرغانی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ (جب تک مجلسِ نکاح میں) دو آزاد، عاقل اور بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں موجود نہ ہوں، مسلمانوں کا نکاح (شرعی طور) پر منعقد ہی نہیں ہوتا وہ گواہ خواہ عادل ہوں یا غیر عادل یا محدود فی القذف ہوں،(فتح القدیرمع ہدایہ، جلد:3،ص: 190)‘‘۔
اس کی شرح میں علامہ کمال الدین ابن ہمام لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ نکاح کے صحیح طور پر منعقد ہونے کے لیے فقہائے کرام نے دو گواہوں کی موجودگی کو جو شرط قرار دیا ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے ثابت ہے: ’’(غیر کفو میں) ولی کی اجازت کے بغیر اور (اسی طرح) دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا، (فتح القدیرمع ہدایہ، جلد:3،ص:190,191، مطبوعہ: مرکزاہلسنت برکات رضا )‘‘۔
اگر نکاح شرعی تقاضوں کے مطابق دو گواہوں کی موجودگی میں منعقد ہوا ہے، تو یہ خفیہ نکاح نہیں ہے، بس اتنا ہے کہ والدین کو لاعلم رکھاگیا ہے، نکاح منعقد ہوگیا، اگر لڑکی کے والدین کو شامل کیا جاتا، تو بہتر ہوتا کیونکہ والدین کی رضامندی اولاد کے لیے سعادت کا باعث ہے، نیز اگر نکاح کفو میں ہوا ہے، یعنی خاندانی حسب ونسب کے اعتبار سے لڑکا، لڑکی کے ہم پلّہ ہے، تو نکاح درست ہوگیا اَحناف کے نزدیک عاقلہ و بالغہ عورت کا اپنی پسند سے کیا ہوا وہی نکاح منعقد ہوگا، جو اُس نے اپنے کفو میں کیا ہوکہ اُس کے اولیاء کے لیے باعث ذلت و عار نہ ہو، اگر اس نے غیر کفو میں نکاح کیا تو وہ منعقد نہیں ہو گا، لیکن یہاں بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کفو میں منعقد ہوا ہے، کیونکہ لڑکا لڑکی خالہ زاد ہیں۔
علامہ عثمان بن علی زیلعی ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ سے روایت ہے: غیر کفو میں نکاح جائز نہیں، کیونکہ بہت سے معاملات کا واقع ہو جانے کے بعد حل کرنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے اور بعض متاخرین نے زمانہ کے فساد کی وجہ سے اسی روایت پر فتویٰ دیا ہے،(تبیین الحقائق، جلد2، ص:117)‘‘
علامہ زین الدین ابن نجیم لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اگر عورت کا شوہر اس کے ہم پلہ ہو تو اس کا نکاح نافذ ہو جائے گا، ورنہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا اور ’’معراج ‘‘ میں ’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ وغیرہ کی طرف یہ قول منسوب ہے: ہمارے زمانہ میں فتویٰ کے لیے یہی بات پسندیدہ ہے، (البحرالرائق ، جلد3، ص: 118)‘‘۔
البتہ اگر لڑکی کے اولیاء اس غیر کفو میں نکاح پر رضا مند ہوں، تو پھر وہ نکاح صحیح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد1، ص:293)‘‘۔ چونکہ اس نکاح میں لڑکے کے والدین بھی شامل تھے، تو یہ نکاح ’’خفیہ ‘‘ نہیں ہے، صرف اتنا ہے کہ لڑکی نے اپنے والدین کو لاعلم رکھا ہے اور اس میں اُن کی رضامندی شامل نہیں ہے، پس فریقین کے درمیان کسی کو حکم مقرر کریں، کوشش کریں کہ اس نکاح کا نباہ ہوجائے اور دونوں خاندان آپس میں مصالحت کرلیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)