• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عیب دار جانور کا عیب عارضی طور پر کسی آلے سے دور کرکے بیچنے کا حکم

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: قربانی کے جانوروں میں تصرفات کرنا، مثلاً جانور شرعی اعتبار سے قربانی کے لیے اس کی عمر پوری نہیں ہوئی ہے، لیکن اس جانور کے سامنے والے دو دانت کو کسی آلے کے ذریعے توڑ دیا جاتا ہے، تاکہ خرید نے والا یہ سمجھے کہ اس کی عمر قربانی کے لیے پوری ہوچکی ہے، اسی طرح بعض جانوروں کے آپس میں لڑنے کی وجہ سے کان یاسینگ وغیرہ عیب دار ہوجاتا ہے، لیکن اسے کسی آلے کے ذریعے برابر کیا جاتا ہے، تاکہ عیب نظر نہ آجائے۔ 

کیا اس طرح کی دھوکا دہی کرنا درست ہے؟ اور ایسے جانورں کی قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز اگر قربانی کے بعد معلوم ہوجائے کہ یہ جانور عیب دار تھا تو اب اس قربانی کا کیا حکم ہے یعنی اس کا دوبارہ اعادہ کرنا لازمی ہوگا یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ دھوکا دہی، خیانت اورجھوٹ بولنا دینِ اسلام میں ناجائز اور حرام ہے، اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا منافع حلال وطیب نہیں ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں قربانی کے جانور بیچنے والے کا کم عمر جانور جو قربانی کی عمر کو نہ پہنچ چکا ہو، اس کے دو دانت توڑ کریہ باور کرانا کہ جانور قربانی کی عمر کو پہنچ چکا ہے، یا جس جانور کے کان، سینگ لڑائی میں اس قدر زیادہ ٹوٹ چکے ہوں کہ جانور عیب دارہو کر قربانی کے قابل نہ رہا ہو، اسے مصنوعی طریقے سے برابر کرکے دھوکا دہی سے بیچنا جائز نہیں ہے، مذکورہ عیب دار جانور کو خریدنے والا اگر خریدتے وقت یا قربانی سے پہلے عیب پر مطلع ہوا تھا، تو اس کی قربانی مذکورہ عیب دار جانور کے ذبح کرنے سے ادا نہیں ہوگی، اگر قربانی کرنے کے بعد عیب معلوم ہوا، تو مالدار شخص (جس پر قربانی واجب ہو) کی قربانی پھر بھی نہیں ہوئی، قربانی کےایام میں دوسرا عیب سے پاک جانور قربان کرنا واجب ہے اور قربانی کے ایام گزر جانے کے بعد جانور کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے، البتہ غریب شخص کی قربانی ہوجائے گی، اس پر دوسرا جانورذبح کرنا لازم نہیں ہوگا۔

حضرت واثلہ بن اسقع کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم ﷺ فرماتے تھے ’’جو شخص کسی عیب دار چیز کو اس طرح بیچے کہ اس کے عیب سے خریدار کو مطلع نہ کرے تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہتا ہے۔

یا یہ فرمایا کہ اس پر فرشتے ہمیشہ لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔“ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب البيوع، باب البیع المنہی عنہ، الفصل الثالث،ج:3، ص:115، ط:البشری - فتاویٰ ہندیہ، کتاب الأضحيۃ، الفصل الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب، ج:5،ص:299،ط: رشيديۃ)

اقراء سے مزید