• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: مہ وش

ملبوسات: GARNET

آرائش: Bege Salon

عکّاسی: عرفان نجمی

کو آرڈی نیشن: عابد بیگ

لے آؤٹ: نوید رشید

ایک بزرگ شاعر، جمیل ادیب سیّد نے ہمارے ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات کے لیے ’’رُوپ مَتی‘‘ (حسین عورت) کے عنوان سے ایک نظم بطورِ خاص بھیجی ہے، ملاحظہ فرمائیں ؎ ’’وہ رانی رُوپ کی، جس کا ہمیشہ رُوپ رہے.....وہ جس کے سامنے ہر روز پھیکی دھوپ رہے.....وہ جس کے چہرے پہ لگتا ہے صُبح ٹھیر گئی..... بہار جس کے لیے رنگ سب بکھیر گئی.....وہ جس کو اہلِ نظر کھویا کھویا چاند کہیں.....وہ جس کے آگے سدا چاندنی کو ماند کہیں.....وہ زلف، زلفِ پریشاں ہو یا سنواری ہو.....وہ کوئی حُور، جو فردوس سے اُتاری ہو.....وہ آنکھیں، جن پر تصدّق ہوں مے کے پیمانے.....وہ ہونٹ، جن میں ہیں پوشیدہ لاکھوں افسانے .....سرکتا شانوں سے اُس کا وہ ریشمی آنچل..... وہ جس کے پاؤں کو چُھونے کو جُھک گئے بادل..... چلے تو فتنے جگاتے ہوئے وہ اُس کے قدم..... جمیل رطب اللسان جس کے حُسن کے ہیں ہم..... پَری ہے، حُور ہے، کوئی بلا ہے، رانی ہے..... مَیں جانتا ہوں کہ یہ صُبحِ زندگانی ہے۔‘‘ زیرِ نظر شوٹ کی ماڈل دیکھی (نام ہی مہ وش نہیں، حقیقتاً بھی چاند چہرہ )، تو نظم بہت حد تک صادق آتی معلوم ہوئی کہ عموماً تو ہماری ماڈلز تنقید ہی کی زد میں رہتی ہیں۔ ’’فلاں موٹی، فلاں بہت دبلی تھی۔ 

فلاں بڑی عُمر کی، فلاں بچّی تھی۔ فلاں نے حددرجہ میک اپ تھوپ رکھا تھا، تو فلاں کا چہرہ بالکل بےتاثر تھا۔‘‘ اُمید تو ہے کہ آج ایسی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ وہ کیا ہے کہ ’’خُوب صُورت ہونا اور خُوب صُورت نظر بھی آنادویک سرمختلف باتیں ہیں۔‘‘ اپنے فطری حُسن کی دیکھ ریکھ، خُود کو جاننا، سمجھنا، شخصی خوبیاں اُجالنا، موسم، موقع محل اور اپنے قد بُت، رُوپ رنگ سے عین ہم آہنگ زیب و زینت، آرائش و زیبائش کا انتخاب ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ کم ہی لوگ خُود آگہی و خُود شناسی کے فن سے مالا مال ہوتے ہیں، اِک عُمر گزرجاتی ہے اور خُود سے بےگانگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اکثر دوسرے ہی لوگ بتاتے ہیں کہ آپ پر یہ رنگ، یہ انداز جچتا ہے۔

آئینہ تک جھوٹ بولے جاتا ہے اور ناواقفانِ حال اُسے سچ مان کر ایک طویل عرصہ ایک ہی ڈگر، روش پر چلتے ہی چلتے چلے جاتے ہیں۔ اور.....پھر کبھی سیلف گرومنگ کے اشتیاق میں یا کبھی کسی اسٹائلسٹ، ماہر مشّاطہ سے مڈبھیڑ کی صُورت اچانک ہی منکشف ہوتا ہے کہ آج تک سولہ سنگھار کے نام پہ جو بھی ہار سنگھار کیا گیا، وہ توفطری حُسن، اصل شخصیت سے لگّا ہی نہیں کھاتا تھا۔

جو رنگ و انداز آج تک اختیار کیے گئے، وہ تو درحقیقت ہمارے لیے تھے ہی نہیں۔ تب ہی تو ’’میک اوور‘‘کی(کسی کو مکمل طور پر تبدیل کردینا، خاص طور پر اُس کا ہیئر اسٹائل، ملبوسات اور میک اپ وغیرہ کا انداز) اصطلاح یا فن رواج پایا۔ اور عمومی طور پر یہ میک اوور شخصیت کے حق میں فائدہ مند، شان دار ہی ثابت ہوتا ہے۔

دورِحاضر کے دیگر ہزار ہا کمالات ومحاسن کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آج ہر ایک نہ سہی، تو کم ازکم ہر تیسرا، چوتھا شخص ’’سیلف گرومنگ‘‘ کے فن سے بہت حد تک آشنا ہوچلا ہے، جب کہ اس ضمن میں خواتین کی شرح تو کہیں بلند ہے۔ بیش تر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایسے ٹیوٹوریلز (Tutorials) سے اَٹے پڑے ہیں۔ روایتی میڈیا، خصوصاً پرنٹ میڈیا بے چارہ تو بس وقت کی لگامیں تھامنے ہی کی جستجو میں ہلکان ہوا جارہا ہے۔ مگر کیا کریں کہ جب تک سانس ہے، زندہ رہنے کی سعی توکرنی ہے۔

تولیجیے، ذراہماری آج کی یہ سعیٔ حاصل یا ’’سعیٔ لا حاصل‘‘ کام یاب کوشش یا ’’کوشش ِ ناکام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ ذرادیکھیے، سفید پلین ٹراؤزر کے ساتھ کوٹ کالروالی سفید، گلابی پرنٹڈ کُرتی ماڈل کے حُسن کو کس طرح کامپلیمنٹ کررہی، بڑھاوا دے رہی ہے۔ سُرمئی اور سیاہ کے سدا بہاردل کش امتزاج میں بلاک پرنٹنگ سے مزیّن لانگ شرٹ، پلین ٹراؤزر اور شیفون جارجٹ کا دوپٹا ہے اور ڈھیلا ڈھالا سا یہ پہناوا بھی ’’رُوپ مَتی‘‘ کے رُوپ کو خُوب ہی جِلابخش رہا ہے۔ 

یوں بھی اِن دنوں اگر ایک طرف فرشی شلواروں کے ساتھ اونچی قمیصیں رواج میں ہیں، تو دوسری جانب پلین شلواروں، ٹراؤزرز کے ساتھ لمبی لمبی قمیصیں بھی فیشن میں  خُوب اِن ہیں۔ کوارڈز (Co-ords) اسٹائل میں (ملبوسات کا ایسا مربوط انداز، جو اوپر سے نیچے مماثل رنگوں، نمونوں یا طرز پر تیار کردہ ہو، کوارڈز کہلاتا ہے۔

یہ اصطلاح Coordinate کا مختصر ورژن ہے) ہلکے سُرمئی رنگ کے پرنٹڈ بیل باٹم کے ساتھ جینٹس کالر، اوپن شرٹ کا لُک بھی ملبوس پر خُوب ہی جچ رہا ہے، تو رائل بلیو اور گلابی کے منفرد تال میل میں میکسی اسٹائل، لانگ فراک نے بھی گویا ؎ ’’سرکتا شانوں سے اُس کا وہ ریشمی آنچل.....وہ جس کے پاؤں کو چُھونے کو جُھک گئے بادل‘‘ کومجسّم ہی کردیا ہے۔ اور گہرے زرد رنگ پرنٹڈ فراک، ٹراؤزر کے ساتھ کنٹراسٹ دوپٹے کی ہم آمیزی نے تو بس اِس شعر کی صداقت پر جیسے مُہر ہی ثبت کردی ہے کہ؎ وہ رانی رُوپ کی، جس کا ہمیشہ رُوپ رہے.....وہ جس کےسامنے ہر روز پھیکی دھوپ رہے۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید