• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حبیب الدین جنیدی

پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدور طبقہ اور اس کو درپیش مسائل، اس کی جدوجہد سے دل چسپی رکھنے اور اُس کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں، یکم مئی 1886 کوامریکا کے شہر شکا گو میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے قربانیاں دینے والے محنت کشوں اور ان کے راہ نماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تقریبات منعقد کرتی، جلوس نکالتی، سیمینارز منعقد کرتی اور شمعیں روشن کرتی ہیں۔

پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوارِ حکومت چھوڑ کر حالات کبھی بھی مزدور طبقے اور اُن کی تنظیموں کے لیے سازگار نہیں رہے۔ ہمارے یہاں صنعت کاروں اور حکومتوں نے مزدور طبقے اور اُن کی تنظیموں کو ہمیشہ اپنا رقیب سمجھا۔ آزادی کے بعد وطنِ عزیز میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنا اور مزدور تنظیمیں قائم کرنا گویا ایک جرم تھا۔بالخصوص دورِ آمریت میں محنت کشوں کے حقوق اور ان کی تحریکوں کو بُری طرح کچلا گیا۔

لیکن اس مایوس کن اور تاریکی کی صورت حال میں کچھ روشنی کی کرنیں بھی پھوٹی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کےدورِ حکومت میں جو 2008 سے 2013 پر محیط تھا، ایک بڑی آئینی ترمیم پارلیمان میں اتفاقِ رائے سے لائی گئی جسے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس ترمیم نے صوبوں کو کافی حد تک اُن کے حقوق دیے اور یوں شعبہ محنت دستوری طور پر وفاق سے صوبوں کو منتقل کردیا گیا۔

اب یہ صوبوں کا حق ہے کہ وہ محنت کشوں اور صنعتی تعلقات کے حوالے سے قانون سازی کریں اور حکمتِ عملی ترتیب دیں جو اس سے قبل وفاق کا تقریباً کلی اختیار تھا۔ صوبہ سندھ نے اس ضمن میں دیگر صوبوں کی بہ نسبت تیزی سے پیش قدمی کی ہے اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین بنائے ہیں۔

مزدور تحریک کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ گلوبلائزیشن، فری مارکیٹ اکانومی اور پرائیویٹائریشن نے دنیا بھر میں مزدوروں اور اُن کی تنظیموں کی طاقت کو محدود اور صنعت کاروں اور سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کیا ہے۔پاکستان میں پرائیویٹائزیشن مزدور طبقے کے لیے ایک خوف کا درجہ رکھتا ہے۔ یہاں کا تجربہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے، کئی ادارے بند ہوگئے اور ٹریڈ یونین تحریک کو پرائیویٹائز ہونے والے اداروں میں دیوار سے لگا دیا گیا۔

چناں چہ ہمارے ملک کی مزدور تنظیموں نے ہمیشہ نج کاری کی مخالفت کی۔اُن کا کہنا ہے کہ بہتر منصوبہ بندی اور اصلاحات کے ذریعہ تمام سرکاری صنعتوں اور اداروں کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے اورنج کاری کے نتیجے میں چند خاندانوں کی ملکی صنعت اور اقتصادیات پر اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے جس کی ایک مثال پاکستان کے پرائیویٹائزڈ کمرشل بینکس ہیں جن میں نجکاری کے بعد ٹریڈ یونینز کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے۔ صرف چند بینکس میں ٹریڈ یونین موت اور زندگی کی کش مکش میں مبتلا ہے۔ 

پرائیویٹائزیشن سے قبل ان کمرشل بینکس میں ٹریڈ یونین کیڈر سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی تعداد کل تعداد کا 70فی صد سے زائد ہوتی تھی جواب گھٹ کر 10فی صد سے بھی کم رہ گئی ہے۔چھانٹیوں اور گولڈن ہینڈ شیک کی نام نہاد اسکیمز کے ذریعے ہزاروں ملازمین ملازمتوں سے فارغ کیے جا چکے ہیں۔

تقریباً یہ ہی صورت حال دیگرنجی صنعتی اداروں اور کارخانوں میں بھی ہے۔ آج کے دور میں جب ملک قانون اور آئین کی پاس داری اور اس کی بالادستی کی جانب بڑھ رہا ہے، نجی شعبے میں ایسا ماحول ہےجسے ’’ریاست کے اندر ریاست ‘‘سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ 

ٹھیکےداری نظام، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم، آؤٹ سورسنگ کے نظام اور ٹریڈ یونینز کی دن بہ دن گھٹتی ہوئی رکنیت نے اُنہیں بہت کم زور کردیا ہے اور وہ کسی مزاحمت کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان حالات میں ملک کے محنت کشوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہونا ہوگا۔

متعدد ٹریڈ یونینز، لیبر فیڈریشنز، لیبر رائٹس اور ہیومن رائٹس کی تنظیمیں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے طور پر مصروفِ جُہد ہیں، مظاہروں، سیمینارز اور جلسے جلوسوں کی صورت میں کارواں گو کہ بہت سُست رفتار سے لیکن آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں حالات ہمیشہ یک ساں نہیں رہتے۔ مزدور تنظیموں اور محنت کش طبقے کو علم ہونا چاہیے کہ پاکستان کی تیئس کروڑ کی آبادی میں ان کی تعداد لگ بھگ سات کروڑ ہے، لیکن وہ غیر منظم ہیں۔

میدانِ سیاست اور پارلیمان میں ان کی کوئی خاص نمائندگی نہیں۔ پارلیمانی جمہوریت ہمارے ملک میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ مزدور طبقے کی تنظیموں کو دیگر ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے تعاون سے جمہوری سیاسی جدوجہد اور پارلیمان میں اپنے طبقے کی مؤثر نمائندگی کے لیے سرگرمی کے ساتھ حصہ لینا چاہیے۔ یہ وقت کا تقاضا اور محنت کش طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجودہ حالات میں ایک مؤثر قدم ہوگا۔

اسپیشل ایڈیشن سے مزید