• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلگام، جو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں واقع ہے، لائن آف کنٹرول (LOC) سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ فاصلہ پہاڑی راستوں اور جنگلی علاقوں سے گزرتا ہے، جو اس خطے کی جغرافیائی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ فاصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کو پاکستان سے براہ راست جوڑنا جغرافیائی لحاظ سے مشکل ہے۔ اس کے باوجود، بھارتی حکومت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، جسے پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے اسے ایک’’گھریلو بغاوت’’قرار دیا۔بلاشبہ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ فوج کی موجودگی میں لائن آف کنٹرول سے دو سو کلو میٹر دور دہشت گردی کے حملے کو پاکستان سے جوڑنا بھارتی افواج اور انٹیلی جنس کی اپنی ناکامی کے سوا کچھ نہیں لیکن جیسے ہی حملے کی خبر آئی، بھارت کی میڈیا مشینری نے اپنی پرانی روش پر کام شروع کر دیا۔ چینلز کی اسکرینوں پر ’’پاکستان نے حملہ کیا‘‘ کی سرخ پٹیاں دوڑنے لگیں۔ کسی کو ثبوت کی ضرورت نہ تھی، کسی نے سوال نہ اٹھایا۔ اور پھر وہی پرانا ڈائیلاگ ’’ہم پاکستان سے اس دہشت گردی کا بدلہ لیں گے‘‘ جیسے بھارت اسرائیل ہو اور پاکستان فلسطین۔

یہ بات سن کر میرا دماغ ایک فلمی منظر کی طرح ماضی کے صفحات پلٹنے لگا، جب دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرکے معصوم بچوں پر شب خون مارا گیا تھا… کیا دہشتگردی صرف پہلگام میں گولی چلنے سے یاد آتی ہے؟ وزیرستان میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے تھے۔ ایک زخمی بچہ صرف یہی دہرا رہا تھا، ’’انکل، میں تو صرف چیز خریدنے گیا تھا۔‘‘ اس آواز میں جو کرب تھا، وہ دہلی کے ایوانوں میں بیٹھے کسی پالیسی ساز نے کبھی محسوس نہیں کیا ہوگا۔

پاکستان کی دھرتی پر ہونے والے ان حملوں کے پیچھے کون تھا؟ یہ سوال اب راز نہیں۔ بلوچستان سے پکڑا گیا بھارتی نیوی کا افسر کلبھوشن یادیو صرف ایک جاسوس نہیں بلکہ ایک اعترافی ثبوت ہے کہ بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان کے خلاف پراکسی وار چھیڑی۔ اس نے تسلیم کیا کہ وہ پاکستان میں تخریب کاری کے مشن پر تھا۔ جعفر ایکسپریس میں ہونے والے دھماکے میں بھی یہ ثابت ہوا کہ دہشتگرد حملے سے پہلے وائرلیس پر کسی ’’صاحب‘‘ سے رابطے میں تھے —وہ ’’صاحب‘‘ کون تھے، پاکستان کی ایجنسیاں اچھی طرح جانتی ہیں۔

پھر وہ لمحہ جب نریندر مودی جاپان کے ایک ہال میں کھڑے ہو کر فخر سے کہتے ہیں:’’ہم دشمن کو اس کے گھر میں گھس کے مارتے ہیں‘‘ اور اس بات پر ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ وہی مودی جس پر گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کا الزام ہے، جسے امریکہ نے ویزا دینے سے انکار کیا تھا، آج دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کا وزیر اعظم ہے۔ جہاں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں مسلمان، سکھ اور عیسائی سب غیر محفوظ ہیں۔

اس وقت تحریک طالبان پاکستان ہو یا بی ایل اے ہر پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم کے پیچھے بھارت اور اسکی خفیہ ایجنسی را ہے ۔مودی کے بیانات صرف جملے نہیں، وہ حملوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کو باور کرواتا ہے کہ بھارت اسرائیل ہے، اور پاکستان اس کا فلسطین۔ مگر وہ بھول جاتا ہے کہ پاکستان کوئی بے بس ریاست نہیں۔ ہم نے ابھی نندن کا طیارہ گرا کر دنیا کو دکھادیا کہ ہم کیا کر سکتے ہیںلیکن ہم امن کے داعی ہیں ۔تاہم بھارت نے اسے کمزوری سمجھا۔ اُس نے جنگی جنون میں نہ صرف پاکستان کے پانی کو روکنے کی کوشش کی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی مہم بھی شروع کر دی۔ پاکستان نے بھارتی اقدامات کا جواب دیا —ترکی بہ ترکی، شرافت سے، وقار سے۔

سوال یہ ہے:بھارت کس راستے پر چل رہا ہے؟ وہ ایک طرف کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے، دوسری طرف دنیا کو یہ باور کروا رہا ہے کہ وہ دہشتگردی کا شکار ہے۔ بھارت کو سوچنا ہوگا کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے۔ اگر اس نے یہ غلط فہمی پال رکھی ہے کہ پاکستان فلسطین ہے، تو وہ دن دور نہیں جب وہ جان لے گا کہ یہاں ایک متحد قوم کھڑی ہے۔ ایسی قوم، جس نے قربانی دینا بھی سیکھا ہےاور لڑنا بھی۔

اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہے:خطے کو امن کی طرف لے جانا ہے یا نفرت کی آگ میں جھونک دینا ہے لیکن یاد رہے کہ پاکستان تیار ہے مذاکرات کیلئے بھی، اورہر طرح کا جواب دینےکیلئے بھی۔

تازہ ترین