پہلگام کے واقعہ کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگی تیاریاں تیز کردی ہیں۔اتوار کو مسلسل تیسری رات بھی لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج نے پاکستانی پوزیشنوں پر بلا اشتعال فائرنگ جاری رکھی،جس کا پاک فوج نے بھرپور جواب دیا۔بھارتی بحریہ نے بھی طویل فاصلے تک میزائل فائر کرتے ہوئے تصاویر جاری کیں۔پاک بحریہ کے حرکت میں آنے پر بھارتی بحری بیڑا پاکستانی حدود سے دور چلا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ شہریوں کے مکانات جلانے،بلڈوز کرنے اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔قابض بھارتی فوج اب تک 175کشمیریوں کو گرفتار کرچکی ہے۔جن میں14مبینہ حملہ آور ہیں۔ان پر لشکر طیبہ،جیش محمداور حزب المجاہدین سے تعلق کا الزام لگایا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیراعظم ووزیرخارجہ اسحاق ڈار خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال سےعالمی رہنمائوں کو آگاہ کررہے ہیں۔وزیراعظم کا ایرانی صدر سے رابطہ ہوا ہے جبکہ وزیر خارجہ نے چین اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کو تازہ ترین صورتحال پر بریفنگ دی ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وونگ ژی نے اسحاق ڈار سے تبادلہ خیال کے دوران کھل کر پاکستانی موقف کی تائید کی ہےاور انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر اس کے اقدامات کو سراہا ہے۔انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ چین پاکستان کا فولادی بھائی اور تذویراتی شراکت دار ہے۔وہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خدشات کو پوری طرح سمجھتا ہے اور اس کی خود مختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔پہلگام واقعہ کی منصفانہ اور بروقت شفاف تحقیقات کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تنازعات کسی بھی فریق کے بنیادی مفادات کیلئےسود مند نہیںاور یہ علاقائی امن و سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہیں۔ایسے موقع پر جب سلامتی کونسل نے بھی ایک بیان میں بھارتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کے حقیقی مجرموں ،سہولت کاروں،مالی اعانت کرنے والوں اور سرپرستوں کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا ہے،چین کی طرف سےپاکستان کیلئے کھل کر حمایت ایک بڑی پیش رفت ہے۔ایران نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے ،جس کا بھارت نے ابھی تک جواب نہیں دیا۔ان ممالک کے سوا امریکا سمیت مغربی ممالک نے کھل کر کسی فریق کی حمایت نہیں کی مگر دونوں کو تحمل سے کام لینے کیلئے کہا ہے۔اسلامی ممالک کی ہمدردیاں یقیناً پاکستان کے ساتھ ہیںاور عالمی برادری بھی پاکستان کے موقف کی حقانیت کو سمجھتی ہے اور برصغیر کی صورتحال کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔بھارت کی سکھ کمیونٹی کی طرف سے بھی واضح ردعمل آیا ہے۔سکھ فار جسٹس کی بین الاقوامی تنظیم کے سربراہ گرپتونت سنگھ پنوں نے اعلان کیا ہے کہ اول تو بھارت ،پاکستان پر حملے کی جرات نہیں کرسکتالیکن اگر اس نے ایسا سوچا تو بھارتی فوج کو حملے کیلئے مشرقی پنجاب سے گزرنے نہیں دیں گے۔وطن عزیز میں سیاسی اختلافات،خاص طور پر دریائے سندھ کے پانی پر تنازعے نے دشمن کو پاکستان کے خلاف پہلگام کا فالس فلیگ منصوبہ بنانے کا حوصلہ دیاہے،مگر وہ نہیں جانتا کہ باہمی اختلافات اپنی جگہ مگر جب بات قومی سلامتی کی ہو تو پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح یک جان اور یک آواز ہوجاتی ہے۔بھارت پہلے بھی اس حقیقت کا سامنا کرچکا ہے اور اب بھی دیکھ رہا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں دفاع وطن کیلئے اپنی بہادر مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہیںجبکہ بھارت کے اندر سے بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کی مخالفت میں توانا آوازیں اٹھ رہی ہیںاور عام سیاستدانوں کے علاوہ سابق فوجی کمانڈروں نے بھی نریندر مودی کے عزائم کی شدت سے مخالفت کی ہے۔