• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے بھارت کیساتھ اپنے تعلقات کے تناظر میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے سے گریز کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے ایک ذمہ دار ملک کی طرح ہمیشہ کوشش کی ہے کہ دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے پیدا کیے گئے مسائل بالخصوص دہشت گردی کو بات چیت اور ایک دوسرے کے تعاون اور مدد کے ذریعے معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان بذات خود بلوچستان میں افغانستان اور بھارت کی مداخلت پر سخت پریشان اور تحفظات کا شکار ہے۔ وہ ان تحفظات کا حل بھی بات چیت کی مدد سے کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بھارت کی مودی حکومت جس نے اس علاقے کے امن کو تباہ کرنے کی گویا قسم اٹھا رکھی ہے وہ ہر طرح کے مذاکرات سے مسلسل انکاری ہے اور جب بھی دوطرفہ مذاکرات کی گفتگو ہوتی ہے تو بھارت اس میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اصولی طور پر تو پاکستان اور بھارت کو ذمہ دار ممالک کی طرح کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں اطراف سے سیاسی کشیدگی اور جنگ و جدل کا ماحول نہ صرف پاکستان اور بھارت کے مفاد میں نہیں بلکہ خطہ کی مجموعی سیاست و معیشت کے استحکام کے حوالے سے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ بھارت اس خطے کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے اسکی معیشت کا حجم بھی بہت بڑا ہے۔ اسکی آبادی بھی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ بھارت ایک ابھرتی ہوئی مستحکم معیشت ہے جبکہ پاکستان ابھی معاشی استحکام کی جنگ لڑ رہا ہے، پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت ہیں، ایسے حالات میں جنگ کا ہونا یا اشتعال انگیزی کا پیدا ہونا دونوں ملکوں کے معاشی مفاد میں نہیں۔ بڑا ملک ہونے کے ناطے سے بھارت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ کے سیاسی اور سیکورٹی استحکام کو یقینی بنائے لیکن بدقسمتی سے بھارت میں نریندر مودی کی شکل میں ایک انتہا پسند حکومت قائم ہے، جو پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کو بزور طاقت اپنا محکوم رکھنے کے عزم پر عمل پیرا ہے۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی معمول بنتی جا رہی ہے۔ بھارت نے پہلگام واقعہ پر پاکستان کو پانچ منٹ کے اندر مورد الزام ٹھہرا کر سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کر دیا۔ پاکستانیوں کیلئے بھارتی ویزے منسوخ کر دیے، پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر بھارت چھوڑنے کو حکم دیدیا، سارک کی سفری اجازتیں منسوخ کر دیں۔ پاکستانی ہائی کمیشن میں تمام دفاعی فوجی بحری اور فضائی عملہ ناپسندیدہ قرار دیکر انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیدیا، سفارتی عملہ محدود کرنیکا حکم دیا اور بھارتی دفاعی اتاشی بھی واپس بلانے کے احکامات جاری کر دیئے۔ یہ اقدامات اس وقت کئے گئے جب ابھی پلوامہ واقعے کی تحقیقات کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ بھارت کے یہ تمام فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت مستقبل میں پاکستان کیساتھ اپنے تعلقات کو معمول کی سطح پر رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا مجبورا پاکستانی دفتر خارجہ جس نے اس مشکل وقت میں انتہائی ذمہ دارانہ اور فعال کردار ادا کیا اس نے بھی سخت رد عمل دیا جسکا تذکرہ میڈیا میں آ چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کی حکومت کے سربراہ جناب میاں محمد شہباز شریف کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔

مرکزی حکومت کے سربراہ کے طور پر میاں شہباز شریف جذباتی گفتگو سے گریز کرتے ہیں اور سوچ سمجھ کر ردعمل دینے کے عادی ہیں۔ انکی خوش قسمتی ہے اس وقت دفتر خارجہ میں اسحاق ڈار کی صورت میں ایک منجھے ہوئے سیاسی کاروباری اور سفارتی مزاج کو سمجھنے والی شخصیت موجود ہیں جو نہ صرف اندرونی معاملات میں رابطہ کاری کا طریقہ جانتے ہیں بلکہ عالمی سفارت کاری میں بھی انہوں نے بہت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا ہے لیکن میری دانست میں اصل امتحان میاں شہباز شریف کا ہے۔اس سے پہلے جب پلوامہ واقعہ ہوا اور پاکستانی فضائیہ نے بھارتی جہاز مار گرایا تو ابھی نندن کو واپس کرنے کے معاملے پر عمران خان نے انتہائی ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بھارت کو واپس کر دیا۔ عمران خان کے اس اقدام سے نہ صرف عالمی سفارتی محاذ پر پاکستان کا وقار بلند ہوا بلکہ عمران خان نے خود کو ایک سیاستدان سے زیادہ ایک اسٹیٹس مین کے طور پر متعارف کروایا۔ میاں شہباز شریف کیلئے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا یہ بہترین موقع ہے کہ وہ کس طرح اپنی صلاحیتوں کے ذریعے پاکستان کو عالمی سفارتی میدان میں پیش کرتے ہیں۔ انکے مد مقابل جو شخصیت ہے اسکا دامن مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خون سے رنگین ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت اس وقت حکومت سے زیادہ ایک مافیا کی طرح کام کر رہی ہے جو پاکستان کے علاوہ امریکہ اور کینیڈا میں سکھوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہے۔ حکومت پاکستان خصوصا میاں شہباز شریف کیلئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے دفتر خارجہ کی ٹیم کو استعمال کرتے ہوئے عالمی پلیٹ فارم پر بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کریں۔ اب یہ میاں شہباز شریف کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح بھارتی حکومت کے منفی رد عمل کے مقابلے میں ایک ذمہ دارانہ اور باوقار طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کس طرح عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی مسلح افواج کی صلاحیتوں کا تعلق ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہر مشکل وقت میں مسلح افواج نے اپنی قوم کو مایوس نہیں دیا۔ روایتی اور غیرروایتی جنگیں ہوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا معاشی دہشت گردی، پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی بھرپور صلاحیت کا اظہار کیا۔ اور پاکستانی قوم بھی اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کر اس وقت فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

تازہ ترین