محترم پروفیسر خورشید سے ہم جیسے طالب علموں کو ٹائم مینجمنٹ سیکھنے کے اسباق ہی اسباق ملتے تھے۔ انھوں نے اپنی شعوری زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہ کیا۔ انھیں معلوم تھا کہ عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ جس کے دوران وہ اپنے لیے کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے تھے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد کی داستانِ حیات دیکھی جائے تو وہ دعوت و عزیمت کی ایک خوب صورت تاریخ ہے۔23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہونیوالے پروفیسر خورشید احمد دور طالب علمی میں ایک لائق، ہونہار طالب علم تھے۔ 1949ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے۔ 1953ء میں ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے، 1956ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، ماہنامہ چراغ راہ کے مدیر رہے، سوشلزم، قادیانیت، فتنہ انکار سنت سیکولرازم اور جاگیردارانہ طرز سیاست کیخلاف نظریاتی جنگ کے ہر اول دستے میں شامل رہے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، ’’تذکرہ زندان‘‘ کے نام سے انکی کتاب آج بھی پڑھنے والوں کو رو داد زنداں سناتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے ہمیشہ مرکزی مجلس شوری میں جچی تلی رائے دی۔
مرکزی مجلس شوریٰ میں ہمیشہ فیصلے کثرت رائے سے ہوئے اور اسے اختلاف کرنیوالے اراکین شوریٰ نے بھی بصمیم قلب تسلیم کیا تاہم جب کبھی یہ مرحلہ آیا کہ کسی محترم امیر جماعت کی انتہائی اخلاص پر مبنی رائے اور جماعتی مصالح اور جماعت کے ماضی، حال اور مستقبل کے تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو جماعت کی سینئر قیادت کے رہنماؤں پروفیسر عبدالغفور احمدؒ، محترم چوہدری رحمت الٰہیؒ کے ساتھ ساتھ جس محترم شخصیت نے سب سے موثر کردار ادا کیا وہ تھے پروفیسر خورشید احمدؒ۔ ان کی گفتگو میں استدلال کی قوت بھی ہوتی اور اخلاص کی شیرینی بھی! اس میں احترام کی لطافت بھی ہوتی اور سب سے بڑھ کر گفتگو کا سلیقہ بھی، ان کی گفتگو ’محبت فاتح عالم‘ کا بہترین نمونہ ہوتی۔ 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ ایک ایسا فیصلہ تھا جو بظاہر ایک بہت مشکل فیصلہ تھا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں ہماری 28سیٹیں تھیں۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی 42 کی نشستوں کو ملا کر ہم اپنی تاریخ کی بلند ترین پارلیمانی پوزیشن پر تھے۔ ایسے میں عدلیہ بحالی کے موضوع پر بائیکاٹ یقیناً ایک اصولی اور جرات مندانہ فیصلہ تھا۔ لیکن اس کی قیمت بہت بڑی تھی۔جب فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ پوری شوریٰ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ فیصلہ پر کمال یکسوئی سے عمل درآمد ہوا۔ کاغذات نامزدگی واپس لیے گئے۔ ہر امیدوار نے اپنی انتخابی مہم روک دی، دو افراد کے علاوہ سب نے مکمل پابندی کی۔ ان دو افراد کا جماعت سے اخراج کر دیا گیا۔ جب مکمل عمل درآمد ہو گیا تو میں نے محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب سے ملاقات کیلئے وقت مانگا۔ انھوں نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کا یہ وقت عنایت فرمایا۔ یہ ان کی خصوصی محبت اور حوصلہ افزائی تھی۔ وہ کارکنوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ اس ملاقات میں میرے ساتھ کوئی اور نہیں تھا۔ میں نے عرض کیا کہ اب فیصلہ زیربحث نہیں کہ وہ تو ہو گیا، اور اس پر عمل درآمد بھی ہو گیا۔ میں تو آپ سے اس استدلال اور حکمت کو سمجھنا چاہتا ہوں کہ جس کی بنیاد پر فیصلہ ہوا ہے۔ چھ ماہ بعد دوبارہ ملکی انتخابات کیوں ہوں گے؟ سول سوسائٹی کون سی ہے؟ کہ جس کی وجہ سے اب ہواؤں کا رخ ہمارے حق میں ہونے والا ہے؟ ان کی شفقت و مہربانی ہے کہ انہوں نے ممکنہ حد تک مجھ جیسے کم فہم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پھر آخر میں انھوں نے انتہائی محبت سے کہا: ’’فرید میاں! ‘‘یہ انکا مخصوص محبت بھرا طرز تخاطب تھا۔ فرید میاں! ہو سکتا ہے آپ ٹھیک کہتے ہوں، ہاں اگر چھ ماہ بعد انتخابات نہ ہوئے اور ہمارے تجزیے درست ثابت نہ ہوئے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں کھل کر اعتراف کرونگا۔ چنانچہ یہی ہوا انتخابات ہو گئے۔ چھ ماہ بعد ہونیوالے متوقع دوسرے انتخابات بھی نہ ہوئے۔ بائیکاٹ کے مضمرات سامنے آنا شروع ہو گئے تب محترم پروفیسر خورشید احمد نے مرکز جماعت میں منعقد ہونے والے سیاسی امور کمیٹی کے اجلاس میں حسب وعدہ کھل کر یہ اعتراف فرمایا کہ اس وقت ہمارا تجزیہ درست نہ تھا اور یہ کہ نقصانات میری توقعات سے بھی گہرے ہوئے ہیں۔ یقیناً وہ اسی طرح کی عظمتوں کے مالک تھے۔
پروفیسر صاحب کی یادداشت کمال کی تھی۔ کبھی کبھار فون پر ان سے گفتگو کی سعادت ملتی رہی۔ تو وہ سب کے بارے میں دریافت کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک بامقصد۔ با سعادت بہترین زندگی گزار کر گئے ہیں۔ جس کا لمحہ لمحہ جاودانی ہےاور اسکا پل پل ان کیلئے توشہ آخرت ہے۔ان کے بے شمار صدقات جاریہ ہیں۔
پروفیسر صاحب کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ ’’جہاں میں اہل ایماں صورت ِخورشید جیتے ہیں‘‘۔دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو زبان و قلم سے بولے لکھے اور راہ خدا میں خرچ کئے گئے ایک ایک روپے کا بہترین اجر عطا کرے اور ان کی اولاد صالحہ اور انکے شاگردوں و کارکنان کو ان کیلئے توشہ آخرت اورذریعہ بلندی درجات بنائے۔ آمین