فیس بک پر ایک پوسٹ نے مجھے چونکا دیا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے نامور ماہر نفسیات کارل زونگ ( 1875 سے 1961) سے منسوب ایک جملہ آج کی دنیا کی بہترین تصویر کھینچ رہا ہے۔
کارل کا یہ کہنا کہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں وہ Dehumanised ہو گئی ہے ہمInhuman غیر انسانی رویوں کا تو عام ذکر کرتے ہیں لیکنDehumanisation اس سے کوئی اگلی منزل ہو سکتی ہے جہاں انسانیت کو بالکل ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے جہاں انسان فکر اور عمل کا مرکز نہ رہے بلکہ ایسی کیفیات اور ایسا ماحول تشکیل کیا جا رہا ہو جو انسان کے وقار حمیت اور اس کی پہل کرنے کی صلاحیت کو ہی ختم کر دے۔ کارل زونگ نے تو یہ تاثر بیسویں صدی میں دیا تھا لیکن اب جب دنیا مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہو چکی ہے خود کاری کا غلبہ ہے ہر مرحلے پر انسان کی ضرورت کم ہوتی جا رہی ہے۔ توDehumanisation شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ انسانوں کے ہاتھوں سے ہی ہو رہا ہے انسان کا اختیار اپنی زندگی پر کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو انسان کو سب کچھ میسر ہے لیکن اسکے باوجود وہ تنہائی کا شکار ہے وہاں یہ اذیت ناک تنہائی پھر بھی قابل برداشت ہے کہ وہاں سسٹم لاگو ہیں انسان نفسیاتی طور پر پریشان رہتا ہے لیکن سسٹم انسان میں قوت مدافعت پیدا کر دیتا ہے انسان کے ہمسائے سرکاری محکمے دفاتر پرائیویٹ کارپوریٹ ادارے انسان کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ زندگی کی آسانیاں ہر قدم پر میسر ہیں روزگار کا تحفظ ہے سوشل سیکورٹی ہے خوراک کی ضمانت ہے علاج معالجے کی سہولتیں بہت سوچ سمجھ کر مہیا کر دی گئی ہیں قانون کا نفاذ یکساں ہے۔
جب ہم اپنے جنوبی ایشیا کی طرف دیکھتے ہیں تو یہاں دنیا حقیقت میں ہمیںDehumanised نظر آتی ہے۔ بھارت اس خطے کا سب سے بڑا ملک ہے وہاں سرکاری طور پر اگرچہ بہت کوشش ہوئی ہے، میڈیا نے بھی مسلسل انسانی زندگی کو آسانیاں فراہم کرنے پر توجہ دی ہے ٹرانسپورٹ میں بہتری آئی ہے لیکن اب بھی بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں زندگی جنگلوں میں رہنے سے بھی بدتر ہے سسٹم انسان کا ساتھ نہیں دیتا پھر بھارتی حکمرانوں کے جنگی جنون، مذہبی تعصبات، ذات پات کے مسائل یہ ماحول کو غیر انسانی بلکہ انسان دشمن بناتے رہتے ہیں۔ انسان جو اس کائنات کا مرکزی کردار ہے جس کے تحفظ اور وقار کیلئے قوانین بنتے ہیں۔ سرکاری محکموں کا بنیادی نکتہ انسان کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور آسان بنانا ہوتا ہے بھارت میں اس کی قدم قدم پرنفی کی جاتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے دوسرے بڑے ملک پاکستان میں اب بھی یہ اٹھارھویں صدی والے طبقاتی تضادات موجود ہیں فرد کی عزت نہیں ہے۔ سردار، جاگیردار، وڈیرے 21ویں صدی کی صرف آسانیاں ہی نہیں بلکہ عشرتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ 77سال میں ہم نے ماحول کو انسان دوست بنانے کے بجائے انسان دشمن بنایا ہے حکمران طبقے نے اپنی سبقت اور اپنے تحفظ کیلئے تو قوانین سسٹم اور آئینی ترامیم کر لی ہیں انگریز نے اپنی تحقیق کے بعد برصغیر میں جو سسٹم بڑی کوششوں سے بنایا تھا ا سے ہم نے بتدریج کمزور اور بے اثر کیا ہے۔ ہماری اکثریت جسے ہم 98 فیصد بھی کہتے ہیں اور 80 فیصد بھی۔ واہگہ سے گوادر تک اس اکثریت کی بلکہ کروڑوں انسانوں کی زندگی صبح سے رات تک ہر قدم مشکلات میں گزرتی ہے۔ پینے کا صاف پانی تو کیا عام پانی بھی ضرورت کے مطابق میسر نہیں ، روزگار کا کوئی تحفظ نہیں۔ حکومت کی طرف سے کوئی سوشل سیکورٹی نہیں ہے، ستم یہ ہے کہ اب کسی طرف سے ان کروڑوں ناداروں پامالوں اور مجبوروں کیلئےکوئی آواز بھی بلند نہیں ہوتی۔ قومی سیاسی پارٹیاں پہلے زبانی جمع خرچ تو کرتی تھیں اپنے بیانات میں غریب کا ذکر ضرور ہوتا تھا اب وہ بھی نہیں رہا۔ پہلے کچھ اقتصادی تحقیقی ادارے ہوتے تھے جو حقیقی اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر اکثریت کی زبوں حالی کا ذکر کرتے تھے۔ پارلیمنٹ صوبائی اسمبلیاں سینٹ ان مسائل پر بحث کرتی تھیں اب ہماری قومی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کی طرف سے بھی غریبوں بے روزگاروں کیلئے کوئی تجویز، اقدام تو اپنی جگہ ہمارے ہمدردی کے بول بھی سنائی نہیں دیتے کیونکہ سیاسی پارٹیوں کی پہلی صف میں ایسےامرا اور روسا موجود ہیں جنہوں نے غربت کا ذائقہ چکھا ہی نہیں ہے تو وہ غربت کا احساس کیسے کر سکتے ہیں ۔
ایک عام پاکستانی خواہ وہ بڑے صوبے پنجاب میں رہتا ہو سندھ کا باسی ہو کے پی کے کا رہائشی ہو بلوچستان سے تعلق رکھتا ہو گلگت بلتستان آزاد جموں کشمیر میں رہتا ہو اس کیلئے ہم میں سے کوئی فکر مند نہیں کہ اس کی زندگی کیسے گزرتی ہے ۔بے روزگاری کا سامنا کیسے کرتاہے اسے مہلک بیماریاں بھی لاحق ہیں۔ پولیس کے مظالم بھی غریب سہتا ہے اپنے سردار جاگیردار کا جبر وہ برداشت کرتا ہے قانون نافذ کرنے والے اہلکار اسے دھتکارتے ہیں۔ دیہات میں جہاں صدیوں پرانا جاگیرداری نظام ہے وہاں اتنا آسرا تو ہے کہ وڈیرے یا چوہدری کے اہلکار کسی فرد کی مشکل میں اس کی چارہ گری تو کرتے ہیں علاج معالجہ بھی ہوتا ہے لیکن بڑے شہروں کی گنجان بستیوں میں تو انسان بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود بالکل لاوارث ہے۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اگر ایک عام پاکستانی گھرانے کا کفیل بے روزگار ہو جائے تو پورا خاندان مفلوج ہو جاتا ہے دو وقت کی روٹی کیلئے پریشانی، بچوں کو اسکول سے اٹھانا پڑ جاتا ہے۔ دستر خوان بچھے ہوئے ہیں فلاحی ادارے علاج میں کچھ مدد کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ کسی سسٹم کے تحت نہیں ہے اور نہ ہی غریبوں کا یہ خیال رکھنا ان فلاحی اداروں کی قانونی یا آئینی ذمہ داری ہے۔
زندگی کی بنیادی آسانیاں فراہم کرنا دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے ہمارے سیاسی رہبروں ،قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین نے بلدیاتی نظام کو جان بوجھ کر بے اختیار کر دیا ہے ،خاص طور پر مالی اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔ ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ایک طرف تو بے کسی کا احساس شدت اختیار کر رہا ہے دانستہ یا نا دانستہ اکثریت کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ آپ کے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے غربت آپ کا مقدر رہے گی۔ ایسے میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم عام پاکستانی کو اس کی اہمیت اور وقعت کا احساس دلائیں۔ اپنے گھروں کو مستحکم کریں ہفتے میں کم از کم ایک دن اتوار کو عصر کی نماز کے بعد ہمسایوں سے، محلے داروں سے ملیں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹیں۔