• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلگام واقعے کو بھارت نے کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر جس طرح فوری طور پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سمیت سخت سفارتی اقدامات کے ذریعے خطے میں جنگ کی فضا پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا ‘عالمی سطح پر اس رویے کے غیرمعقول ہونے کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عالمی برادری میں بھارت کو شفاف تحقیقات پر تیار کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا احساس قوی ہوتا نظر آرہا ہے۔اس حوالے سے گزشتہ روزروس، ترکی، سوئٹزرلینڈ ،یونان اور عراق کی جانب سے اہم پیش رفت سامنے آئی ۔ترک سفیر ڈاکٹر عرفان نیزیرولو نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں صراحت کی کہ ترکیہ پہلگام واقعے کی شفاف تحقیقات کے پاکستانی موقف کا حامی ہے جبکہ وزیراعظم نے ترک حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ بھارت پہلگام واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کسی بھی قسم کا ثبوت دینے میں ناکام رہنے کے باوجود پاکستان کو واقعہ سے جوڑنے کی سازش کر رہا ہے۔ سوئٹزرلینڈ اور یونان کے وزرائے خارجہ نے بھی گزشتہ روز ہی وزیر خارجہ اسحق ڈار سے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کے پاکستانی مؤقف کو درست قرار دیا ۔ وزیر خارجہ نے یونان اور سوئٹزرلینڈ کے وزرائے خارجہ سے گفتگو میں بھارت کے بے بنیاد الزامات اور اشتعال انگیز پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بھارتی فیصلے کے خطرناک مضمرات واضح کیے۔ سوئس وزیر خارجہ نے پہلگام واقعے کی تحقیقات کیلئے پاکستان کی آمادگی کو سراہا اور تحقیقات میں تعاون کی خواہش کا اظہار کیا۔سربراہ خارجہ امور یورپی یونین کاجا کلاس نے پاکستان و بھارت کے وزرائے خارجہ سے ٹیلیفونک رابطے میں دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورتحال میں بہتری کیلئے بات چیت کا راستہ اپنائیں۔پاک بھارت کشیدگی کے دوران عراقی وزیرخارجہ عراقچی بھی پاکستان کے دورے پر آرہے ہیںجس کے بعد وہ بھارت بھی جائیں گے اور دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کرکے باہمی کشیدگی ختم کرنے پر بات کریں گے ۔ پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے میں عالمی برادری کے متحرک ہونے کے حوالے سے ایک نہایت اہم پیش رفت روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی جانب سے بھارت اور پاکستان دونوں کے وزرائے خارجہ سے رابطے کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ انہوںنے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیہ کے فریم ورک کے اندر سیاسی اور سفارتی ذرائع سے اپنے اختلافات حل کریں۔ روسی سفارت خانے کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ ایک آن لائن گفتگو میں لاوروف نے پاک بھارت تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ دوطرفہ رابطے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اختلافات کو 1972ء کے شملہ معاہدے اور 1999ء کے لاہور اعلامیہ کی دفعات کے مطابق طے کیا جانا چاہیے جن میںجنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان تنازعات کے حل کیلئے پرامن بات چیت ہی کے طریقے کو اپنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔بلاشبہ جنوبی ایشیا کی جوہری طاقتوں میں کشیدگی ختم کرنے کیلئے عالمی برادری کا متحرک ہونا علاقائی ہی نہیں عالمی امن کی بھی ضرورت ہے اور گزشتہ روز اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت بہت خوش آئند ہے ۔ بھارتی حکومت کیلئے ہوشمندی کا راستہ یہی ہے کہ وہ عالمی برادری کی ان کوششوں کو رائیگاں نہ جانے دے اور پاکستان کی پیشکش کے مطابق عالمی برادری کے شرکت کے ساتھ واقعے کی شفاف تحقیقات میں مکمل تعاون کرے کیونکہ جنگ کا راستہ خود بھارت کیلئے بھی تباہ کن ہوگا اور عالمی سطح پر بھی اس کے نتائج نہایت سنگین ہوں گے۔

تازہ ترین