سچی بات ہے جب بھی ارد گرد گردش کرتی منفی خبریں اور رویے اداس کرنے لگتے ہیں تو پاکستانی سیاست اور حکومت کے افق پر کوئی ایسی روشنی دکھائی دے جاتی ہے جو امید بندھاتی ہوئی خوشحالی کے خواب دیکھنے پراُکساتی ہے۔حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان نے دنیا کو جس طرح اپنے موقف سے آگاہ کیا وہ حیران کن ہے۔اپنے اندرونی اختلافات ،انتخابات اور دیگر پیچیدہ معاملات سے توجہ ہٹانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بدنام اور تنہا کرنے کیلئے مودی سرکار نے جو بم پھوڑا ، پاکستان کے متحمل اور دانشمندانہ اقدام سے اس کی کرچیاں مودی کی اپنی سیاست اور شخصیت میں پیوست ہونے لگی ہیں۔ ورنہ شروع میں بھارت کے واویلے پر دنیا کچھ اور سوچنے پر مجبور ہوتی دکھائی دی اور بھارت کا پلڑا بھی بھاری لگ رہا تھا۔ بھارت کی گیدڑ بھبکیوں کا جذباتی انداز میں جواب دینے کی بجائے پاکستان نے منطق اور تحمل سے پہلے دنیا کے سامنے اصل صورتحال رکھی۔ ہر پلیٹ فارم پر امن کو پہلی ترجیح بنائے رکھنے کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو پھر تباہی سب کے حصے میں آئے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ ایک جملہ’آغاز آپ کریں گے اور اختتام ہم‘صدیوں یاد کیا جاتا رہے گا اس لیے کہ ا س سے مختصر اور نرم الفاظ میں بھارت اور اس کے ہمنواؤں کو اتنا سخت پیغام دینا ممکن نہیں تھا۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر فوجی نقل و حرکت بڑھا کر فائرنگ سے پاکستان کو مشتعل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن پاکستان نے پہل نہ کرتے ہوئے ان کا ہر حملہ پسپا کرکے اپنی دفاعی طاقت بھی دکھائی اور دنیا پر مثبت تاثر بھی چھوڑا۔ الزامات اور دھمکیوں کے جواب میں کوئی بھی زبانی یا عملی جارحانہ قدم نہ اٹھا کر پاکستان نے جو محتاط رویہ اپنایا پوری دنیا نے اس کو سراہا۔دوسری طرف بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام لگانے اور عالمی معاہدوں سے انحراف کرنے نے بھارت کے جذباتی پن اور سازشی بیانیے پر مہر ثبت کر دی۔ بھارت اب تک پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا جب کہ پاکستان کے اندر بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد ڈی جی آئی ایس پی آر نے پوری دنیا کو دکھا کر سچ اور جھوٹ کا نتارا کیا۔آرمی چیف نے خالی خولی بڑھکیں مارنے کی بجائے محاذوں پر جاکر اپنے عزم کا اظہار کیا۔ دور تک مار کرنے والے میزائلوں کے تجربے سے دشمن کی غلط فہمی کا جواب دیا اور اپنی طاقت کی دھاک بٹھائی۔آج ہندوستان کے چینلز رو رہے ہیں کہ ہمیں پاکستان کی کمزور تصویر دکھا کر رسوا کیا گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے معتبر مسلم ممالک کے سفیروں سے ملاقاتوں اور دنیا کے مختلف وزرائے اعظم اور صدور سے ٹیلی فونک رابطے کے ذریعے اصل صورتحال سے آگاہ کر کے کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرنے کو کہا۔اقوام متحدہ سے بھی خطے میں امن کے لیے فعال کردار کا مطالبہ کیا۔عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی تنہائی کے خاتمے میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کا کردار بہت اہم رہا۔انہوں نے اقتصادی ،ثقافتی اور بیانیاتی سفارت کاری کے ذریعے خطے میں امن قائم رکھنے کے لئے عمدہ سفارتکاری مہم کے ذریعے پاکستان کو ایک ذمہ دار اور امن پسند ریاست کے طور پر پیش کیا۔بلاول بھٹو نے جرات مندانہ موقف اپناتے ہوئے مودی کی شر انگیزی سے دنیا کو آگاہ کیا، تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ، حکومتی اور اپوزیشن شخصیات اور عوام ایک پلیٹ فارم پر نظر آئے ۔اگرچہ ابھی تک خطے میں کشیدگی کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن پاکستان نے حکومتی ، عسکری اور عوامی سطح پر بہترین سفارت کاری 'مضبوط عزم اور دانشمندانہ حکمت عملی سے دنیا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ جنگ نہیں،امن کا خواہش مند ہےاور یہ بھی کہ پاکستانی قوم اپنے وطن کی آن اور آزادی کے وقت ایک قوت بن کر سامنے آتی ہے۔ان کے لازوال وطن دوستی کے جذبے کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ہندوستان سے معاملات ٹھیک ہونے کے بعد پاکستان کو لگے ہاتھوں ملک کے اندر مصروف دشمن کے آلہ کاروں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے'جو لوگ تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں انہیں قانون کے کٹہرے میں لائیں اور جو اپنے زہریلے بیانات سے دشمن کے بیانیے کو ہوا دے رہے ہیں'ان سے سیاسی جماعتوں اور محب وطن لوگوں کو فاصلہ کر لینا چاہیے۔یہی ان کا احتساب ہوگا۔
بقول خاطر غزنوی
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے