پہلگام واقعہ کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ ایسے میں نریندر مودی نے کئی بار پاکستان کو رافیل طیاروں سے حملے کی دھمکیاں دیں جن سے وہ اپنی تمام تر امیدیں لگائے بیٹھے تھے لیکن کچھ روز قبل مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب 4رافیل طیاروں نے جب پاکستان پر حملہ آور ہونے کا مذموم ارادہ کیا تو پاک فضائیہ کے جنگی طیاروں نے ان رافیل طیاروں کے نیویگیشن سسٹم کو Lock کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا۔ یاد رہے کہ بھارت نے 2016میں فرانس سے 36رافیل جنگی طیارے حاصل کئے تھے جن کی مالیت 8.8ارب ڈالر تھی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کویہ یقین تھا کہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل یہ طیارے جنہیں ریڈار اسکرین پر دیکھا نہیں جاسکتا، پاکستانی حدود میں گھس کر اہداف کو نشانہ بناسکیں گے اور اس طرح بھارت، پاکستان پر دفاعی برتری حاصل کرلے گا مگر پاکستان کے خلاف رافیل طیاروں کے حالیہ مشن میں ناکامی کے بعد جنگی جنون میں مبتلا نریندر مودی کی ان طیاروں سے بندھی تمام تر امیدیں دم توڑ گئیں۔ حالیہ تنازع کے دوران بھی بھارت نے فرانس سے مزید 26رافیل طیارے جن کی مالیت 7.4ارب ڈالر ہے، خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ بھارت کا شمار دنیا میں دفاعی ساز و سامان خریدنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہوتا ہے جو اپنے دفاع پر سالانہ 90ارب ڈالر خرچ کرتا ہے اور گزشتہ سال بھارت کے دفاعی بجٹ میں 10فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اسکے برعکس پاکستان اپنے دفاع پر صرف 10ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔ اس طرح بھارت کی دفاعی صلاحیت پاکستان سے 9 گنا زیادہ ہے۔
کسی بھی ملک کے دفاع کو اُس ملک کی سلامتی تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں میں ایک واقعہ شیئر کرنا چاہوں گا۔ 1973ء میں جب عرب، اسرائیل تنازع شدت اختیار کرگیا تو اس وقت کی اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے اپنی کابینہ کو امریکہ سے اربوں ڈالر کے دفاعی ساز و سامان خریدنے کی تجویز پیش کی مگر اسرائیلی کابینہ نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اتنی بھاری مالیت کے فوجی ساز و سامان کی خریداری سے اسرائیل جو پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہے، مزید معاشی مشکلات کا شکار ہوجائے گا اور قوم کو صرف ایک وقت کے کھانے پر گزارہ کرنا ہوگا جس پر اسرائیلی وزیراعظم نے کابینہ سے کہا کہ اگر ہم اس دفاعی ساز و سامان کی بدولت عربوں سے جنگ جیت گئے تو تاریخ ہمیں ’’فاتح‘‘ کے طور پر یاد رکھے گی اوریہ نہیں دیکھے گی کہ ہماری قوم کیا کھاتی تھی۔ گولڈا میئر کے ان دلائل پر اسرائیلی کابینہ، امریکہ سے اربوں ڈالر کے دفاعی ساز و سامان کی خریداری پر آمادہ ہوگئی جسکی بدولت اسرائیل نے عربوں پر فتح حاصل کی۔ عرب، اسرائیل جنگ کے خاتمے کے بعد کسی صحافی نے اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر سے سوال کیا کہ ایسے حالات میں جب اسرائیل شدید مالی و معاشی مشکلات کا شکار تھا، آپ نے اتنے زیادہ دفاعی ساز و سامان کی خریداری کا فیصلہ کیوں کیا؟ اسرائیلی وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے یہ فیصلہ مسلمانوں کے نبیﷺ کے بارے میں ایک واقعہ پڑھ کرکیا۔ گولڈا میئر نے بتایا کہ پیغمبر اسلام کی جب وفات ہوئی تو گھر میں چراغ جلانے کیلئے تیل خریدنے کے پیسے نہ تھے اور اُن کی اہلیہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ڈھال گروی رکھ کر تیل خریدا حالانکہ اُس وقت پیغمبر اسلام کے گھر کی دیواروں پر 9تلواریں لٹک رہی تھیں۔ اس واقعہ نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں جو 1400 سال پہلے کی اسلامی ریاست کی معاشی حالت کو جانتے ہوں گے لیکن دنیا مسلمانوں کو آدھی دنیا کا فاتح قرار دیتی ہے، اس لئے میں نے اپنے ملک کے دفاع کیلئے ہر قیمت پر ان دفاعی ساز و سامان کی خریداری کا فیصلہ کیا۔‘‘
اسلامی تاریخ کا مذکورہ واقعہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ محدود وسائل کے باوجود 1400سال قبل مسلمانوں نے پیوند لگے کپڑوں کے ساتھ فاقے کرکے اس وقت فتوحات حاصل کیں جب انکے پاس دولت نہ تھی لیکن آج عربوں کے پاس بے حساب دولت ہے مگر ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل ان تمام عرب ممالک پر حاوی ہے کیونکہ عرب ممالک اپنی دولت بڑے بڑے محلات، عمارتیں، شکار گاہیں، شاپنگ سینٹرز اور تفریح گاہیں بنانے پر ضائع کررہے ہیں۔ اس واقعہ میں پاکستان کیلئے بھی سبق ہے کہ آج بھارت، اسرائیل کی حکمت عملی اپناتے ہوئے اپنے دفاع پر بے دریغ اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے لیکن دفاعی بجٹ ہماری آخری ترجیح ہے اور ہم اپنے بجٹ کا بڑا حصہ ترقیاتی کاموں کے نام پر موٹر ویز، ہائی ویز اور ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ منصوبوں پر خرچ کررہے ہیں جنکی زیادہ تر رقوم کرپشن کی نذر ہوجاتی ہیں۔ ماضی میں اگر بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو معاشی مشکلات کے باوجود ایٹم بم بنانے کا جرات مندانہ فیصلہ نہ کرتے اور قوم قربانیاں نہ دیتی تو آج پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جاتا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آج اسی ایٹم بم کے خوف نے بھارت کو 1971کے بعد سے ہم پر کوئی بڑی جنگ مسلط کرنے سے روک رکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ضروری ترقیاتی منصوبے روک کر دفاعی بجٹ کو ترجیح دی جائے، دفاعی بجٹ دگنا کیا جائے اور ملکی دفاع مضبوط بنانے کیلئے مسلح افواج کو رافیل طیاروں سے بھی زیادہ جدید طیاروں، ایئر کرافٹ کیریئر اور جدید دفاعی ساز و سامان سے لیس کیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مضبوط دفاع رکھنے والی قوموں کو ہی سر اٹھاکر جینے کا حق حاصل ہے بصورت دیگر بین الاقوامی ناانصافی کے سمندر کی بڑی مچھلیاں کمزور قوموں کو نگل جاتی ہیں۔ آج سے 54سال پہلے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ’’گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے‘‘ کا تاریخی نعرہ لگا کر اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر ملکی سلامتی کو یقینی بنایا۔ وقت آگیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف بھی دفاعی بجٹ میں اضافے کا جرات مندانہ فیصلہ کریں، چاہے قوم کو ایک وقت کی روٹی ہی کیوں نہ کھانا پڑے، اِسی میں پاکستان کی سلامتی اور بقاہے۔