(گزشتہ سے پیوستہ)
اساتذہ کی ٹریننگ بھی پاکستان میں ایک عجوبے سے کم نہیں ۔انہیں ہر اس چیز کی ٹریننگ دی جاتی ہے جس کا عملی میدان میں کوئی فائدہ نہیں۔
اسکول لیڈرشپ اینڈ ڈویلپمنٹ پروگرام SLDP کے علاوہ ابھی تک ڈھنگ کی ایک تربیت بھی ایسی نہیں دی گئی جس سے عملی طور پر بچے کا کوئی فائدہ ہو۔
استاد کو ٹریننگ کسی اور پس منظر میں دی جاتی ہے جبکہ زمینی حقائق بالکل اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ بھی لکھنا پڑ رہا ہے کہ پالیسی بنانے والے ماہرین دیہاتی بچوں کو کسی خاطر میں لاتے ہی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ شاید ماہرین پاکستان کے حالات ہی سے واقف نہیں ہیں ۔
اساتذہ کو شخصیت سازی میں بھی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے، ان کا انگریزی اور اردو تلفظ بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے، نصاب میں سماجی اور اخلاقی رویوں پر بھی کام ہونا چاہیے۔ ایک بار ایک ٹیچر ٹریننگ پروگرام میں ایک استاد کو صرف اس لئے ٹریننگ سے نکال دیا گیا کہ اس نے ایک بات پر اعتراض کیا تھا۔
بات کچھ یوں تھی کہ ایک انگریز تربیت دہندہ نے ایک کیس اسٹڈی پڑھنے کو دی، جس میں ایک لڑکی اپنے والد سے کہہ رہی تھی کہ میرے بوائے فرینڈ سے ملیں، استاد نے صرف اتنا کہا کہ ہمارے کلچر میں لڑکی ایسا نہیں کرسکتی تو ٹرینر نے یہ کہہ دیا کہ آپ بہن بھائی کرلیں چونکہ کہانی کے آخر میں دونوں کی شادی ہونا تھی، اس لئے استاد نے بدتمیزی کردی کہ آپ کے ہاں بہن بھائی کی شادی ہوسکتی ہے، ہمارے ہاں نہیں۔ بس پھر وہ استاد ٹریننگ میں نہیں بلایا گیا۔
عمران خان کے دور میں ایک سنجیدہ کوشش ضرور کی گئی کہ ایک نصاب ( سنگل نیشنل کرکلم ) متعارف کروایا گیا۔ اس کے تحت ایلیٹ اسکول اسلامیات، اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھانے کے پابند تھے، دینی مدرسوں کو بھی سائنسی علوم پڑھانے کا پابند کیا گیا، اسی طرح گورنمنٹ اور تمام پرائیویٹ اسکولوں کو پابند کیا گیا کہ اسلامیات اردو میں پڑھائی جائے۔
یہ ایک مفید تجربہ تھا کیونکہ یہ پرائمری کی سطح تک متعارف کروایا گیا تھا اور اگلے مرحلے میں ہائی اسکول میں جانا تھا لیکن حکومت بدلتے ہی اس پر کام روک دیا گیا۔
طویل عرصے تک کراچی یونیورسٹی میں علوم دینیہ کے سربراہ رہنے والے ڈاکٹر عبد الرشید کچھ عرصہ کے لئے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔پچھلے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الرشید لکھتے ہیں کہ’’میں نے ابتدائی تعلیم ، مڈل تک صوبۂ سرحد ( خیبرپختونخوا ) کے ایک ٹاؤن بفہ، ہزارہ سے پائی، 1957 میں پانچویں میں تھا تو انگریزی نصاب کا حصہ بنا، پانچویں تک مقامی زبان پشتو کے ساتھ ساتھ فارسی اور اردو لازمی تھیں۔ 1964سے کراچی میں ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھی، میرا عملی تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا ستیا ناس کرنے میں ٹیوشن سنٹرز اور موجودہ HEC سسٹم شامل ہیں، جس پر اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں۔
کبھی Annual سالانہ اور کبھی سمسٹر، اور پھر BA کے بجائے نہ معلوم کیا کیا سسٹم کہ جو بیرون ملک تعلیم کے لئے بہت ضروری ہے، کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ہمارے کتنے فی صد بچے ہر سال بیرون ملک تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔
ہاں اشرافیہ کے بچے بیرون ملک ہی پڑھتے ہیں۔ اگر تعلیمی نظام کو اپنے کلچر اور عہد حاضر کی ضرورت کے مطابق ڈھالنا ہے تو پھر ملک بھر سے ٹیوشن سنٹرز کا خاتمہ کرنا ہو گا، بیرونی ممالک کی مدد سے چلنے والے اداروں کو مین اسٹریم میں لانا ہوگا اور دینی مدارس کو جدید تعلیم سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ کراچی یونیورسٹی دینی مدارس کی اصلاح کے عمل کی ابتدا 1998ء سے کر چکی ہے۔ آج ہمیں فتاویٰ کی نہیں موجودہ حالات کے تناظر میں اجتہاد کی ضرورت ہے، اس مشکل اور انتھک محنت کے لئے ہمارے تقلید پسند اور آرام پسند مولانا حضرات تیار نہیں۔
دنیا بھر کے تعلیمی نظام میں ٹیوشن اور ہوم ورک کا کوئی تصور نہیں طلبہ کو مکمل تدریسی و تحقیقی سہولیات تعلیمی ادارے خود مہیا کرتے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کیلئے سخت محنت اور Dedication کی ضرورت ہے مگر اس کے لئے قوم کو تیار ہونا ہو گا۔
آپ قوم کے جس درد کا مداوا چاہتے ہیں، آپ کی طرح چند دیوانے اور مل جائیں گے۔ کوشش جاری رکھئے، اللہ اپنے حبیب رحمتہ للعالمین اور اہل بیت کے طفیل ضرور کامیابی عطا فرمائے گا‘‘۔
پڑھی لکھی گلوکارہ طاہرہ سید کہتی ہیں’’ آپ اپنے بچوں کے ساتھ اسکولوں اور گھروں میں صرف انگریزی کیوں بولتے ہیں، آپ ان کے ساتھ مادری زبان کیوں نہیں بولتے؟ آخر آپ نے اپنے بچوں کو کون سے سیارے پر بسانا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کے بچوں کو سب سے پہلے پاکستانی زبانیں سکھائی جائیں۔
دنیا کہہ رہی ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے، ہم پتہ نہیں کیوں انگریزی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟‘‘ عنبرین حسیب عنبر کے اشعار یاد آرہے ہیں کہ
وہ مسیحا نہ بنا ہم نے بھی خواہش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیئے اس سے گزارش نہیں کی
کس لئے بجھنے لگے اول شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی