امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کیلئے واشنگٹن کے مصالحتی کردار کا اعادہ کرتے ہوئے اس امکان کی نشاندہی بھی کی کہ شاید ہم انہیں (یعنی دونوں ملکوں کی قیادتوں کو) ایک خوشگوار عشائیے پر اکٹھا کرلیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد کی طرف سے اگرچہ ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ناپسندید قرار دینے کے حکم، مختلف سطحوں سے آنے والی لفظی جنگ سمیت ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں جن کے موجودگی میں دو متحارب ممالک کے رہنمائوں کو خوشگوار عشایئے پر یکجا کرنے کی خواہش یا تجویز بظاہر بعید از امکان محسوس ہوتی ہے مگر دنیا کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صدیوں کے دشمن ایک دوسرے کے دوست بن گئے اور انکے درمیان اعتماد و تعاون کی مثالی کیفیت سامنے آئی۔ یہ سب اس بنا پر ممکن ہوا کہ ان ملکوں نے حقائق کا ادراک کیا اور اپنے تنازعات طے کرکے دوستی کی ایسی بنیاد رکھی جس کی عملی صورت یورپ کے ماضی کے متحارب ملکوں کی آج ایک یونین کی صورت یکجا ئی میںنظر آتی ہے۔ 22اپریل کو پہلگام میں دہشت گردی کے واقعہ کی پاکستان سمیت دنیا بھر نے مذمت کی مگر نئی دہلی کی حکومت نے کسی تحقیق و ثبوت کے بغیر منٹوں میں پاکستان کو موردالزام ٹھہرا کریکے بعد دیگرے جو انتہائی نوعیت کے اقدامات کئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے لکھے ہوئے اسکرپٹ کا حصہ تھا ۔ 7مئی کی رات کو مختلف مقامات پر میزائل حملوں، گولہ باری اور فضائی حملوں کی صورت میں جو کیفیت پیدا کی گئی وہ اسی وجہ سے بدلی کہ پانچ جنگی طیاروں کی تباہی سمیت بھارت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور سفید جھنڈے لہرا کر اسے امان مل سکا۔ مگر اگلے ہی روز بھارت نے جو مس ایڈونچر کیا اس کے تناظر میں امریکہ، چین، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ سمیت سب ہی کی امن سرگرمیاں مزید تیز ہوئیں تاآنکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنی ثالثی میں جنگ بندی کا اعلان کشیدہ صورتحال میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ اب امریکی صدر نے سعودی دارالحکومت ریاض میں ولی عہد محمد بن سلمان کی موجودگی میں اہم خارجہ پالیسی تقریر کے دوران جو کچھ کہا، اس میں وہ پاک بھارت تنازع میں امن کے داعی کے طور پر نمایاں ہوئے۔ پاک بھارت کشیدگی روکنے کو انہوں نے تاریخی کامیابی قرار دیا، واضح کیا کہ ہم اُس تنازع سے دور آچکے ہیں جو لاکھوں جانیں لے سکتا تھا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ شاید ہم انہیں ایک خوشگوار عشایئے پر بھی اکٹھا کرسکیں، فریقین سے کہا کہ ایٹمی میزائلوں کی تجارت نہ کریں بلکہ ان چیزوں کی تجارت کریں جو آپ خوبصورتی سے بناتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کاوشیں اور یہ جذبات قابل قدر ہیں تاہم انہیں عملی صورت میں سامنے لانے کیلئے بھارت کی اس سوچ میں تبدیلی ضروری ہے جو علاقے کے ملکوں کو اپنا زیردست بنانا اور اس مقصد کیلئے ہر اقدام اور ہر بیانیہ جائز سمجھتا ہے۔ ایسے عالم میں، کہ بھارتی وزارت خارجہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی برقرار رکھنے کے اعلانات کر رہی ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ معاہدہ توڑے جانے کو اعلان جنگ کے مترادف قرار دے رہا ہے استحکام امن کیلئے بہت کچھ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آدم پور ایئربیس پر تقریر کرتے ہوئے جو اشتعال انگیز تقریر کی وہ امن کی سمیت قدم بڑھاتے والے کی نہیں ، جنگ کی آگ بھڑکانے والے فرد کی تقریر معلوم ہوتی ہے۔ شعلہ فشاں بیانات، سرحدوں کی خلاف ورزی اور پاکستانی علاقے میں بھارتی ڈرون بھیجے جانے کے منظرنامے میں یہ ضرورت بڑھ گئی ہے کہ پاکستانی قوم مثالی اتحاد کا مظاہرہ جاری رکھے اور مسلح افواج ہر دم ہائی الرٹ رہیں۔ جہاں تک دوست اور امن پسند ملکوں کی کاوشوں کا تعلق ہے، وہ پاکستان کا بڑا سرمایہ اور عالمی امن کی ناگزیر ضرورت ہیں، ان کی قدر کی جانی چاہئے۔