• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحۂ پہلگام کے ردِعمل میں انڈیا نے ”آپریشن سندور“ کے تحت دیگر مقامات کے علاوہ لشکرِ طیبہ کے مرکز طیبہ پر جب سے میزائل مارے ہیں مریدکے خبروں میں ہے جبکہ یہ درویش تو جم پل ہی مریدکے کی ہے غلہ منڈی مریدکے جو اس وقت سیاسی، سماجی اور مذہبی تقریبات اور جلسوں کی آماجگاہ یا رونق ہوا کرتی تھی یہیں اس کی رہائش تھی۔ اپنے بچپن میں ملک کی بڑی بڑی سیاسی و مذہبی شخصیات کو یہیں آتے جاتے اور تقاریر کرتے دیکھا سنا‎ تعمیرِ ملت اور مندر والے سکول سے لے کر جی ٹی روڈ کے گورنمنٹ ہائی سکول تک، مریدکے کی گلیوں، بازاروں اور محلوں کا کوئی ایک کونہ گوشہ اس درویش کی دست برد سے باہر نہیں تھا ۔یہیں پر فیملی فرقے بریلوی سے، دیوبندی پھر وہابی اور مابعد مودودیہ ہوا۔ اسلامی جمعیت کے مقامی ناظم کی حیثیت سے ہر کسی کی آگاہی گویا اپنا دینی و مذہبی فریضہ خیال کرتا اور یہ دعویٰ رکھتا کہ درویش یہ بتا سکتا ہے کون یہاں کا مقامی ہے اور کون باہر سے آیا ہوا۔ صبح یا شام کا معمول تھا کہ ریلوے ٹریک پر سیرکرنی ہے جو بعض اوقات ننگل سادہاں تک چلی جاتی جس جگہ اب لشکرِ طیبہ کا مرکز ہے تب یہاں کھیل کھلیان ہوتے تھے سچ تو یہ ہے کہ موجودہ مرکزِ طیبہ درویش کی آنکھوں کے سامنے تعمیر ہوا۔ اس کے معماران میں حافظ سعید صاحب سے لے کر پروفیسر ظفر اقبال تک جناب امیر حمزہ، ذکی الرحمن لکھوی اور یحییٰ مجاہد تک سبھی سے نہ صرف ذاتی شناسائی رہی بلکہ حافظ سعید اور انکے معتمدِ خاص ظفر اقبال صاحب کے تو ایک زمانے میں تفصیلی انٹرویوز بھی کیے جو ہمارے میگزین کی زینت بنے۔ امیر حمزہ صاحب کی قرأت اور خوش الحانی میں دلسوزی کا اتنا مداح رہا کہ جب درویش کے فادران لاء کی رحلت ہوئی تو رِقت آمیز دعاؤں کے ساتھ نمازِ جنازہ پڑھانے کیلئے خصوصی فرمائش کی جو انہوں نے پوری کی جس کا امیر حمزہ صاحب نے اپنے کالم میں تذکرہ بھی کیا تھا۔ مریدکے میں اہلِ حدیثوں کی پہچان مولانا اجمل صاحب سے بخاری و مسلم کے اسباق پڑھے علامہ ساجد میر کے ساتھ بھی ایک زمانے میں قربت رہی، حافظ سعید صاحب انجینئرنگ یونیورسٹی میں اسلامیات کے لیکچرار سے ترقی کرتے ہوئے کیسے جہادی بنے؟ پوری داستان ازبر ہے۔ ان کی سادگی کے ساتھ جہادی زبان میں عجب تاثیر تھی کہ ایک مرتبہ اپنے بھتیجے سعد کے ساتھ انکے پیچھے نماز عید پڑھی تو جہاد پر ان کا بیان سنتے ہوئے وہ بچہ

اسی میں کھو گیا مجھ سے بولا کہ آپ مجھے ان کی تنظیم میں شامل کروا دیں، حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا ”وہ کیوں؟“ بولا میں بھی جہادی بننا چاہتا ہوں۔ بڑی مشکل سے اسے سمجھایا اور آئندہ کیلئےسوچ لیا کہ معصوم ذہنوں کو کبھی ادھر لے کر نہیں آؤں گا۔ کتنے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو حافظ صاحب کے لشکر میں شامل ہوکر اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننے کی بجائے لقمۂ اجل بن گئے۔ ایک مرتبہ ایک انڈین سفارت کار نے،جو درویش کی تحریروں سے آگہی رکھتا تھا اور لاہور سے تعلق کے حوالے سے جانتا تھا درویش سے پوچھا کہ ریحان جی آپ کا اور آپ کے پرکھوں کا اصل تعلق کہاں سے ہے؟ جواب میں جب یہ کہا کہ ”آپ نے مریدکے کا نام تو سنا ہو گا؟“ تو ترنت بولے ”ریحان جی ہم سے جیادہ کس نے سنا ہے۔“ کبھی موقع ملا تو امام المجاہدین حافظ سعید صاحب کے متعلق ذاتی حوالے سے دو تین سخت نوعیت کے واقعات بھی تحریر کیے جائیں گے۔‎ اس وقت اسی پر اکتفا ہے کہ درویش کے پیر و مرشد سرسیدؒ جو اپنی اصل میں خود ایک سخت یا کٹروہابی تھے اور تمثیلاً فرماتے تھے کہ ایک کریلا اور دوسرے نیم چڑھا کی طرح ہوں مگر ساتھ ہی ان کا فرمان ہے کہ ہندوستان ایک خوبصورت دلہن کی مانند ہے، ہندو اور مسلمان جس کی دو روشن آنکھیں ہیں۔ اگر ایک آنکھ خراب ہو گئی تو اس دلہن کی خوبصورتی نہیں رہے گی۔ درویش آج بھی اس عظیم الشان تاریخی خطۂ ہند میں ہندو اور مسلمان کو اپنی دو آنکھوں کی طرح سمجھتا ہے سو وہ کیسے یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اس کی کسی ایک آنکھ کو نقصان پہنچے اسے دونوں کا درد برابر محسوس ہوتا ہے۔ سو اے ہر دو جانب کے دنیا دارو! سیاست کیلئے نفرت پھیلانے کے بیوپاریو! خطے کے پونے دو ارب انسانوں کو پیار محبت ترقی و خوشحالی کے ساتھ جینے دو تم نے جنونی نعروں سے ان کا سکون کیوں برباد کر رکھا ہے خدارا اب ان کی نئی نسلوں پر ہی کچھ ترس کھاؤ۔

تازہ ترین