• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی شخص یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت خاص طورپر آصف علی زرداری اوربلاول بھٹو زرداری نے اس مرحلے پر وزیر اعلیٰ سندھ کو تبدیل کیوں کیا ہے ، جب عام انتخابات میں صرف پونے دو سال باقی ہیں لیکن اس تبدیلی سے ہی سندھ میں ہر شخص اپنے طورپر یہی سمجھنے لگا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی صوبائی حکومت کے ذریعے وہ کچھ کرناچاہتی ہے ، جوپہلےسے مختلف اور بہتر ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سے اس صوبے کے عوام نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی ہیں ۔ کچھ مختلف کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت نے سید مراد علی شاہ کا انتخاب کیوں کیا ؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے ، جو نہ صرف عام لوگوں کے ذہنوں میںہے بلکہ خود پیپلزپارٹی کے لوگ بھی ایک دوسرےسے یہ سوال کر رہے ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے کسی بھی مرحلےپر ، یہاں تک کہ مشاورتی اجلاسوںمیں بھی ، پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور ارکان اسمبلی کو اس بابت کچھ نہیں بتایا کہ سید مراد علی شاہ کا انتخاب کیوں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی کسی سے یہ پوچھاکہ اگر سید مراد علی شاہ نہ ہوں تو اس منصب کےلیے دوسرا پارٹی رہنما کون ہو سکتاہے۔ اس پر بھی پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سمیت سندھ کے لوگوںنے اپنے طورپریہ تصور کر لیا کہ سید مراد علی شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور زیادہ باصلاحیت شخص ہیں ۔ وہ توانائی اور جذبےسے سرشار ہیں اورپارٹی قیادت کی نظروںمیں بحیثیت وزیر ان کی کارکردگی بہتر رہی ہے ۔ انہی اسباب کی بنا پر انہیں پارٹی کے بعض دیگر سینئر رہنماؤںپر فوقیت دی گئی ہے ۔ اس تصور کےباعث سید مراد علی شاہ سے لوگوں کی وابستہ توقعات میں اضافہ ہو گیا ہے ۔
دیکھنایہ ہے کہ سید مراد علی شاہ ان توقعات پر کس طرح پورے اترتے ہیں اور وہ سندھ کے عوام کو کیا ڈلیور کرتےہیں ۔ وہ بہتر جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے انہیں وزیر اعلیٰ سندھ کے منصب کے لیے کیوں منتخب کیا ہے اور اس کے سندھ میں سیاسی اہداف کیا ہیں ۔ انہیں اس بات کا بھی گہرا ادراک ہے کہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ ( اسٹیبلشمنٹ ) سندھ کو اب تک کس طرح چلاتی رہی ہے اور وہ سندھ کےبارے میں آئندہ کیا سوچ رہی ہے کیونکہ وہ سید عبداللہ شاہ مرحوم کے صاحبزادے ہیں ، جو21 اکتوبر 1993 سے 6 نومبر 1996 تک سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے اور سید عبداللہ شاہ مرحوم کا دور حکومت ایسا تھا ، جس میں کراچی کے حالات کو ٹھیک کرنےکےلیے ایک بڑا آپریشن ہوا اور پیپلز پارٹی ایسے انجام سے دوچار ہوئی ، جس میں پیپلزپارٹی کی قیادت اور سید مراد علی شاہ کے خاندان کو یہ اندازہ ہو گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرح سوچتی ہے اور سندھ میں سیاسی حکومتوں کو معاملات کس طرح چلانے چاہئیں ۔ سید مراد علی شاہ کےپاس یقیناً ایک واضح پروگرام ہو گا کہ معاملات کو کس طرح چلاناہے لیکن معاملات بہت زیادہ پیچیدہ ہیں ۔ عوام کی توقعات پر پورا اترنےسے پہلے انہیں دو بنیادی چیلنجز سے نمٹنا ہو گا ۔ اگرچہ امن وامان کی صورت حال 1996 کے مقابلے میں بہت بہترہے لیکن اس وقت کا سب سے بڑا اور انتہائی پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کی حکمت عملی تن تنہا سیاسی حکومت طے نہیں کرتی ہے اور اس آپریشن میں وہ لوگ بھی گرفت میں آ رہے ہیں ، جنہیں حکمراں پیپلزپارٹی کی قیادت کے بہت قریب تصور کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعلقات کو مزید کشیدگی سے بچانا سید مراد علی شاہ کےلیے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے ۔ سندھ کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اپنے انداز میں یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ ایک مرحلے تک پارٹی قیادت ان سے مطمئن بھی تھی ۔ سید مراد علی شاہ اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ۔ کیا وہ سید قائم علی شاہ کی حکمت عملی سے مختلف ہو گی اور اگر مختلف ہو گی تو اس کے نتائج کیا ہوںگے ۔ سید مراد علی شاہ کو اس حوالےسے دانشمندانہ سیاسی پالیسی وضع کرنا ہو گی ۔ سید مراد علی شاہ کےلیے دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ حکومتی امور چلانےکےلیے غیر حکومتی شخصیات کی مداخلت کو کس حد تک روک سکتےہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ کوئی بھی حکومت وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اکیلا نہیںچلاتا،اسے پارٹی قیادت کی رہنمائی اورپارٹی سے مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومت کا سربراہ اس قدر بے اختیار نہیں ہوتا ، جس طرح سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ تھے ۔ سید قائم علی شاہ کو انتظامی محکموں اور اداروں میں افسران کے تقرریوں اور تبادلوں کے لیے صرف اوپر سے ہدایات ملتی تھیں اور وہ اپنا پرنسپل سیکرٹری بھی اپنی مرضی کا نہیں رکھ سکتےتھے ۔ اس طرح بے اختیار سربراہ حکومت کچھ بھی ڈلیور نہیں کر سکتا ہے ۔ سید مراد علی شاہ کو اپنے وژن اور اپنے پروگرام کے مطابق حکومت چلانےکےلیے خود فیصلے کرنے کا اختیار کسی حد تک حاصل کرنا ہو گا۔ مذکورہ بالا دونوں چیلنجزسے نمٹنے کے بعد سندھ کےنئے وزیر اعلیٰ کو گورننس بہتر بنانے، صوبے کی ترقی اور عوام کو ریلیف دینےکےلیے اقدامات کرنے کا موقع مل سکے گا۔ اس کے لیے انہیں اپنی ٹیم میں بہتر لوگوں کا انتخاب کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کے لوگوں خصوصاً سینئر لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ سندھ سیاسی طورپر بہت حساس صوبہ ہے ۔ آئندہ عام انتخابات سے پہلے یہاں کے حالات مزید پیچیدہ ہونےکے آثارپیدا ہو گئے ہیں ۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں اور پیپلزپارٹی کی مخالف قوتوںنے جن حالات میں پیپلزپارٹی کو دو مدتوںکے لیے سندھ میں حکومت کرنے دی ، اب وہ حالات نہیں رہے ۔ سید مراد علی شاہ کی کامیابی کو صرف ایک بات کے حوالے سے پرکھا جائے گا کہ وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی مسلسل تیسری دفعہ حکومت بنوا دیں اور سندھ میں گڈ گورننس کی وجہ سے پیپلزپارٹی دیگر صوبوں میں اپنی سیاسی حیثیت بحال کر لے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے درپیش مشکلات کا بھی خاتمہ ہو ۔ یہی پیپلز پارٹی کے سیاسی اہداف ہیں ۔ یہ اہداف حاصل کرنا اب آسان نہیں ہو گا ۔ سید مراد علی شاہ کو اس مرحلے پر بہت مشکل ٹاسک ملا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس وقت بھی بہت کم ہے ۔ یہ ٹاسک پورا کرنےکےلیے محنت ، لگن اور قابلیت کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے لیکن اس سے زیادہ فلسفیانہ اپروچ اور جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے ۔


.
تازہ ترین