• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےیکسربدلےہوئے تعمیری رویے دیکھ کر ان کےاقتدار کےان چار ماہ کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ اپنے دوسرے دور صدارت میںوہ امن کے سفیر بن کرآئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔دوایٹمی ممالک پاکستان اور بھارت میں شدت کی طرف بڑھتی جنگ رکوانا،شام پر عائد پابندیوں کا خاتمہ،ایران کے ساتھ چوالیس سالہ اختلافات ختم کرنے اوراس کے بدلے میں خوشگوار تعلقات کا ایک نیا دور شروع کرنے کی خواہش میں دوطرفہ مذاکرات کا آغازاورروس یوکرائن جنگ رکوانے کی کوششوں پر دنیا پرخوشگوار حیرت طاری ہے تاہم غزہ پر اسرائیلی حملے جاری رہنے میں امریکی کردار ایک سوالیہ نشان ضرور بنا ہواہے۔ صدر ٹرمپ اب جنگ نہیں،تجارت کے عالمگیر فروغ کا ایجنڈا لے کر آئے ہیں،اور پاکستان اور بھارت کو بھی یہی پیغام دے رہے ہیں کہ اپنا سرمایہ جنگی تیاریوں کی بجائےغربت ختم کرنے پر صرف کریں، پاکستان ہمیشہ سے امن کا داعی رہا ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جب 22اپریل2025کو چند لمحات کے اندرپہلگام واقعہ کو جواز بناکر اشتعال انگیزی شروع کی اور پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا،اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں،سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا،اس کے باوجود پاکستان نے صبروتحمل سے کام لیا،ہر زاویے سے پہلگام واقعہ کا کھوج لگانے کی پیشکش کی۔لیکن بھارت نے اسے پاکستان کی کمزوری سمجھتے ہوئےاپنی عسکری طاقت کے نشے میں 6اور7مئی کی درمیانی رات اس کی شہری آبادیوں پر میزائل داغ دیے،جس سے 26افراد شہید، 46زخمی اورمساجد کی بے حرمتی ہوئی۔جس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے مایہ ناز 6طیارے مار گرائے۔8مئی کو بھارت نے پاکستان کے کئی شہروں پر ڈرونز کی یلغار کردی جنہیں پاک فضائیہ نے تباہ کردیا۔9مئی کی شب نور خان ایئر بیس پر بھارتی میزائل حملہ پاکستان کے صبر کا آخری امتحان ثابت ہوا اور علی الصباح اس نےفجر کے وقت سے صبح آٹھ بجے تک بھارتی فضائیہ کا غرور خاک میں ملادیا تھا،جس پر اقوام عالم پاکستانی شاہینوں کی شجاعت کی داد دیے بغیر نہ رہیں۔اس سے پہلے کہ پاکستانی کامیابیوں کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دبائو ڈال کر فوری جنگ بندی کرادی اور اپنی ثالثی میں معاملہ مذاکرات پر ختم کرنے پر زور دیا۔عرب ملکوں کا چار روزہ دورہ مکمل کرلینے کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ کے تمام ہولناک پہلو اجاگر کرتے ہوئے ممکنہ نقصانات کی جگہ دونوں کیلئے فائدہ مند اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔صدر ٹرمپ کےمتذکرہ انٹرویو میںان کے پاکستان سے متعلق حوصلہ افزا تجزیاتی رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔وہ نہ صرف پاکستان کے امریکا کے ساتھ تجارت بڑھانے کے متمنی ہیں ،ان کے نزدیک پاکستان اور بھارت کو بھی اس شعبے میں باہمی طور پر آگے آنا چاہئے۔انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ امریکا ،پاکستان کو فراموش نہیں کرسکتا،یہ ایک ذہین ،محنت کش اور ہنرمند قوم ہے،لیکن اچھے تعلقات ہونے کے باوجودپاکستان کی واشنگٹن کے ساتھ تجارت نہ ہونے پر حیرت ہے۔ صدر ٹرمپ کے انٹرویو کی روشنی میں یہ حوالہ دینا ضروری ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ،مودی حکومت کو تمام مسائل مل بیٹھ کرحل کرنے اور ان کی جگہ دوطرفہ دلچسپی کے امور پر بات چیت کی بارہا پیشکش کرچکے ہیں۔لیکن اس نے ہمیشہ اسے پاکستان کی کمزوری جانا۔صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش ،پاکستان کیلئے بلامبالغہ حوصلہ افزا امرہے ۔ اسے نتیجہ خیزاورپائیدار بنانے کیلئے کشمیرہی ایک ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنے سےدیگر مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے۔

تازہ ترین