پاکستان نے شدید عالمی دبائو کی پروا نہ کرتے ہوئے جب ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28؍مئی کو ایٹمی دھماکے کر ڈالے تو کاروباری برادری اور کاروباری مصلحتوں کے برعکس میرا بڑا واضح اور دوٹوک موقف تھا کہ ایسا کرنا علاقائی امن اور ملکی سالمیت کیلئےنا گزیر تھا۔ 28؍جون 1998ء کو پاکستان کے سرکردہ انگریزی اخبار دی نیوز میں میرے تحریر کردہ آرٹیکلـ ’’نیوکلیئر پاکستان گارنٹر آف سٹیبلیٹی اِن ایشیا‘‘میں میں نے کھل کر ان خدشات و عوامل کا تذکرہ کیا تھا جن کے تحت ایسا کرنا پاکستان کی مجبوری تھا۔ بھارت اس وقت بھی سپر پاور بننے اور اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اسرائیل اس وقت بھی بھارت کا پشتیبان تھا۔ اسرائیل نے اپنا ایٹمی پروگرام شمعون پیریز کی سربراہی میں 1952ء میں عرب ممالک پر برتری حاصل کرنے کیلئے شروع کیا تھا لیکن پاکستان کے عرب ممالک کیساتھ غیر مشروط دیرینہ تعلقات اور جذباتی وابستگی کے باعث عرب ممالک اور پاکستان کو سیاسی طور پر ایک سمجھا جاتا تھا، اسی سبب نے اسرائیل کو پاکستان کے مخالفین کی صفِ اول میں لاکھڑا کیا تھا۔ تب سے اسرائیل پاکستان کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ اور خطرہ جانتے ہوئے اس کیخلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہو گیا۔ 1967ء میں سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم ڈیوڈ بین گورین نے فرانس میں یہودیوں کے ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو اپنے وجود کیلئے سب سے بڑا خطرہ بتاتے ہوئے اسے اپنا سب سے بڑا ٹارگٹ قرار دیا تھا۔ بھارت نے اپنا نیو کلیئر پروگرام 1948ءمیں شروع کر دیا تھا۔ اسکا مقصد علاقائی برتری حاصل کرنا اور بحرہند میں ناقابلِ تسخیر حیثیت پانا تھا۔ بھارت ایسا کر کے نہ صرف جنوبی ایشیا میں اپنی برتر حیثیت اختیار کرنا چاہتا تھا بلکہ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی خود کو ’’چوہدری‘‘ دیکھنے کا خواہاں تھا جسکے مقابلے میں دیگر علاقائی قوتوں کا اثر نہ ہونے کے برابر رہ جائے، یہاں تک کہ دیگر علاقائی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کی عرب ریاستیں تک اسکے سامنے سر نہ اٹھا سکیں۔اسکی خواہش تھی کہ ایشیا کے حوالے سے روس امریکہ سمیت دیگر تمام عالمی قوتیں جب بھی کوئی پالیسی سازی کریں تو اس سے اشیر باد حاصل کرنا انکی مجبوری بن جائے۔ اسرائیل اور امریکہ کی بھرپور پشت پناہی کے بعد بھارت ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان کو عالمی پابندیوں کا خوف اور دیگر مصلحتیں بھی جوابی ایٹمی تجربے کرنے سے روک نہ پائیں یہی وہ لمحہ تھا جب ایشیا میں طاقت کے توازن نے دیر پا امن اور بھارتی سازشی تھیوریوں کی سرکوبی کی ضمانت بخشی۔
کیسا عجیب اتفاق ہے کہ مئی کے مہینے میں ہی بھارت نے اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کیلئے پہلگام واقعے کو جوازبنا کر طاقت کے نشے میں پاکستان پر دھاوا بول دیا۔ پاکستان کی معاشی سیاسی اور سفارتی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس بار بھی بھارت کا خیال تھا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگا اور خطے میں ایک ناقابلِ تسخیر معاشی و فوجی قوت کے طور پر بہ آسانی تسلیم کر لیا جائیگا۔ لیکن جدید ترین ٹیکنالوجی، جدید ترین ہتھیاروں، عددی فوجی برتری اور اسرائیل کی کھلی امداد کے باوجود بھارت کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ بھارت کو ایسے دندان شکن جواب کی ہرگز توقع نہ تھی۔ اسے اسرائیل کی پشت پناہی، امریکی آشیر باد، فرانس کے فراہم کردہ رفال طیاروں اور روسی جدید ترین دفاعی آلات کا کچھ زیادہ ہی گھمنڈ تھا۔ بدلے میں پاکستان کے شاہینوں نے اسکی توقعات کے برعکس شدید ترین اور منہ توڑ جواب دے کر اسکے غرور کو خاک میں ملا دیا تو اسے راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے قوم سے کیے گئے خطاب میں اس کی جھلاہٹ، پشیمانی اور پژمردگی بہت سی داستانیں سنا رہی تھی۔ بھارت کی اس شرمناک پسپائی میں ہماری ایٹمی صلاحیتوں کا خوف بھی کار فرما ہے۔ اگر آج ہم ایٹمی قوت کے حامل نہ ہوتے تو صورتِ حال ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہے۔
پاکستان میں بھارتی جارحیت کیخلاف موثر جوابی کارروائیوں، بہترین جنگی حکمتِ عملی، اپنی افواج کی بے پناہ صلاحیتوں، جدید ترین جنگی حربوں اور جرات و بہادری کو لے کر خاصی مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی افواج کی غیر معمولی صلاحیتوں کا معترف پورا عالمی میڈیا اسے بھارت کی شرمناک شکست سے تعبیر کر رہا ہے۔ پاکستان میں خوشیوں کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ جنگی ماحول میں تمام اختلافات بھلا کر قوم کا متحد ہو کر پاک فوج کے پیچھے کھڑا ہونا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ ہمیں اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسی اتحاد و یگانگت کو دائمی بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ ہمارے لئے مقامِ شکر ہے کہ ہم سے کئی گنا بڑے ازلی دشمن کا جنگی جنون اور غرور خاک میں مل گیا ہے۔ اللہ پاک کی خاص نصرت نے ایک بار پھر پاکستان کو اقوامِ عالم میں سرخرو کیا ہے۔ لیکن یہ مقام، مقامِ شکر ہونے کیساتھ ساتھ مقامِ فکر بھی ہے ہمیں بھارت کی اس وقتی پسپائی کو اپنی دیرپا فتح نہیں سمجھنا چاہئے۔ بھارت جیسا عیار، مکار اور گھٹیا دشمن اپنے ناپاک ارادوں سے کبھی باز نہیں رہ سکتا۔ وہ سیز فائر کی آڑ ضرور لے رہا ہے لیکن اسکے پیٹ میں اکھنڈ بھارت کا مروڑ کسی وقت بھی اٹھ سکتا ہے۔ اس لیے اپنے مکار دشمن کا سامنا اور مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں پہلے سے زیادہ مستعد، با صلاحیت وہنر مند،جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس اور حکمت آشنا ہونا پڑے گا۔ سفارتی محاذ پر ہمیں بھارت کی مکاریوں اور جھوٹے بیانیوں کا پردہ چاک کرنے کیلئے موثر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ اپنے چھپے اور ظاہری دشمنوں سے خبردار رہنا پڑیگا۔ اپنے اندرونی مسائل، اختلافات اور رنجشوں کا حل ڈھونڈنا پڑیگا۔ بھارت اب ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی خِفت مٹانے کی بھرپور کوششیں کریگا ہمیں ان کوششوں کے تدارک کیلئے پہلے سے تیار رہنا ہو گا۔
عوام الناس اور مقتدرہ کے بیچ ایک خلیج حائل تھی جو آئے روز بڑھتی چلی جاتی تھی خدا کا شکر ہے کہ بھارت کے اس غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ اقدام نے عوام اور مقتدرہ کو اتحاد و یگانگت بخشی۔ اس خلیج کو اب ہمیشہ کیلئے ختم ہو جانا چاہیے۔ یہ بہت اچھا موقع ہے کہ ہماری مقتدرہ عوام کے ذہنوں میں پنپنے والی غلط فہمیوں کا تدارک کرے اور عوام الناس کو خود سے جوڑنے کیلئے انکے خدشات و توقعات کے حوالے سے کوئی واضح اور دیر پا پالیسی اپنائے۔ ہمارا سامنا ایک شاطر مکاراور عیار دشمن سے ہے جو ازل سے ہماری سلامتی کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے ہمیں خود کو مضبوط، متفق اور متحد رکھ کر اسکا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اسے ہمارے اتحاد کو توڑنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم خود میں اتحاد، اتفاق اور یگانگت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقین کریں پاکستان کی سالمیت کی طرف کبھی کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔
(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)