ہم کالم نگاروں کے لیے بڑی مصیبت ہے، کووڈ آیا تو ڈاکٹر بننا پڑا۔۔۔کمپنیوں کو ویکسین بنانے کے مشورے دیے، لوگوں کو وائرس کی اقسام سمجھائیں، طریقہ علاج تک بتایا۔ اور جب پاک بھارت جنگ کا غلغلہ شروع ہوا تو مجبوراً ہمیں جنگی امور کے ماہر کا روپ دھارنا پڑا۔۔۔ لگے ہیں بتانے لوگوں کو کہ بھارت کا ایس 400 ائیر ڈیفنس سسٹم کیا ہے، اسرائیل ساخت کے ہیروپ ڈرون کیسے کام کرتے ہیں، ہمارے میزائل انڈیا کے ریڈار سے بچنے میں کیسے کامیاب ہوئے، وغیرہ۔ مجبوری ہے، کیا کریں، ہم تو پھر لکھاری ٹائپ لوگ ہیں، یہاں تو ریڑھی والے کے پاس ایسی ایسی معلومات ہوتی ہیں کہ بندہ انگشت بداَنداں رہ جاتا ہے۔ اگلے روز میں تربوز لینے کے لیے رکا تو ریڑھی والا مجھے کہنے لگا ’’باؤ جی، یہ جو پاکستان نے انڈیا کا ائیر ڈیفنس سسٹم تباہ کیاہے، یہ کتنے تک کا ہوگا؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا ’’کیوں، تم نے خریدنا ہے؟‘‘ وہ بولا ’’نہیں جی، ویسے ہی دل کو خوش کرنا ہے۔‘‘ جہاں عام لوگوں کی یہ حالت ہو وہاں ہم بھی اپنی علمیت نہ جھاڑیں تو کالم لکھنے کا کیا فائدہ! یہی سوچ کر آج قلم گھسیٹا ہے ورنہ تہیہ کیا تھا کہ اب جنگ پر کچھ نہیں لکھنا۔
پہلگام دہشت گردی کے بعد بھارت نے پاکستان پر الزام لگا کر کئی سُرخ لکیریں عبور کیں جو اِس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھیں۔ پہلی، بھارت نے پاکستان کی جغرافیائی حدود کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، دوسری، اُس نے پاکستان کے غیر متنازعہ علاقوں پر میزائل حملے کیے اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا، تیسری، اُس نے شہری علاقوں پر ڈرون پھینکے اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا۔ یہ تمام باتیں محض الزامات نہیں رہے بلکہ بھارتی میڈیا نے بڑھ چڑھ کر اِن دعوؤں کی تصدیق کی اور اِس پر مضحکہ خیز انداز میں شادیانے بجائے۔ ہندوستان کی یہ حکمت عملی خاصی سوچی سمجھی تھی اور یہ بی جے پی کی اُس سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کا عملی اظہار ۲۰۱۶ سے شروع ہوا۔ اِس حکمت عملی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ پاکستان کے صبر کو مسلسل آزمایا جائے اور اِس بات کااندازہ لگایا جائے کہ ایٹمی ہتھیاروں کو چھوڑ کر، روایتی سطح پر پاکستان کی فوجی صلاحیت میں کتنا دم ہے۔ انڈیا کا مفروضہ یہ تھا کہ پاکستان روایتی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلام آباد کافی عرصے سے خطرے سے گریز کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت نے اپنی اِس حکمت عملی کو، جنوری ۲۰۱۶ میں پٹھانکوٹ اور اُس کے بعد ستمبر ۲۰۱۶ میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے اُڑی میں ایک فوجی اڈے پر ہونے والے حملے کے بعد، اُس وقت اپنایا جب نئی دہلی نے لائن آف کنٹرول کے پار اپنی نام نہاد ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کا اعلان کیا۔ پھر فروری۲۰۱۹ میں پلوامہ میں ایک خودکش بم دھماکے میں۴۰ ہندوستانی نیم فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ہندوستان نے بالاکوٹ میں فضائی حملے کیااور اپنے جیٹ طیاروں کو پاکستانی سرزمین میں بھیجا۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان نے اِن تمام اقدامات کا نہایت دانشمندانہ، نپا تلا مگر بھرپور جواب دیا۔ تاہم بھارت کا جنگی جنون بڑھتا چلا گیا اور اُس نے ’’گھر میں گھُس کر ماریں گے‘‘ کو ایک پالیسی کے طور پر اپنا لیا۔ یہ تمام کوششیں روایتی جنگ کے لیے پاکستان کی صلاحیت کو ختم کرنے اور بھارتی روایتی کارروائی کے لیے جگہ بنانے کے لیے تھیں تاکہ پاکستان کو یہ باور کروایا جا سکے کہ تمہارے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم تم پر حملہ نہیں کر سکتے۔ بھارت کا خیال تھا کہ چونکہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا موقع صرف انتہائی صورتحال میں ہی ممکن ہے اِس لیے روایتی جنگ کی حد تک پاکستان کو بے دست و پا کرکے اپنی برتری کی مہر ثبت کر دی جائے۔ یہ ہندوستان کی نئی پلے بُک تھی جسے اُس نے اسرائیل سے مستعار لیا۔ ہندوستان یہ چاہتا تھا کہ جس طرح دنیا نے اسرائیل کو ’حقِ دفاع‘ کے تناظر میں سات خون معاف کر رکھے ہیں بالکل اسی طرح ہندوستان کو بھی یہ لائسنس ٹو کِل مل جائے تاکہ کل کلاں وہ جب جی چاہے کوئی بھی الزام لگا کر پاکستان پر چڑھ دوڑے اور دنیا کی ٹی وی اسکرینوں پر پاکستانی عوام اور بچوں کی تصویریں اسی طرح نشر ہوں جس طرح بے یار و مدد گار فلسطینیوں کی ہوتی ہیں۔ یہ تھی وہ صورتحال جس میں پاکستان نے فیصلہ کرنا تھا کہ کیا ہم نے اِن شرط و شرائط پر زندہ رہنا ہے یا پھر انڈیا پر یہ واضح کرنا ہے کہ وہ بے شک خود کو اسرائیل سمجھے مگر پاکستان بہرحال لبنان یا فلسطین نہیں ہے۔ اِس کے بعد ۱۰ مئی کو جو کچھ ہوا وہ تاریخ کی کتابوں میں پڑھایا جائے گا کہ کیسے پاکستان نے صرف انڈیا کی ہی نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک کی غلط فہمی بھی دور کر دی جو پاکستان کو ‘ہلکا‘ لیتے تھے۔
کہتے ہیں جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں مگر اِس مختصر جنگ کے تمام نتائج پاکستان کے حق میں نکلے ہیں۔ سب سے اہم نتیجہ صدر ٹرمپ کی صورت میں برآمد ہوا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ وہ صدر نہیں ہیں جو سرکاری فائلوں پر لکھے ہوئے نوٹ کی منظوری دیں، اِس بات کو یوں بھی کہہ سکتے کہ روایتی امریکی صدر کو مختلف معاملات پر بریفنگ دی جاتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ امریکہ کی فلاں پالیسی ہے لہذا صدر اُس پالیسی کو یوں آگے بڑھائے۔ انڈیا جیسے ممالک لابنگ فرموں پر پیسے خرچ کرکے اِن پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے تھے اور اکثر کامیاب رہتے تھے۔ ٹرمپ کے معاملے میں ایسا نہیں ہے، ٹرمپ پالیسی دیتا ہے اور ادارے اُس پر عمل کرتے ہیں، یہ بات انڈیا کے حق میں نہیں گئی، نئی دہلی دہائی دیتا رہ گیا مگر صدر ٹرمپ نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ کہا، اسے بین الاقومی ثالثی سے حل کروانے کی پیشکش کی اور پاکستان اور انڈیا کو ایک ہی ترازو میں تول کر برابر لا کھڑا کر دیا۔ انڈیا کی برسوں کی محنت دس دن میں مٹی میں مِل گئی۔ اسی لیے میں پہلے دن سے ٹرمپ کو اپنا محبوب قائد کہہ رہا ہوں۔
تیسرا نتیجہ سب سے اہم ہے۔ اپنی شکست کے بعد ہندوستان اِس کے اسباب پر غور کرے گا اور فوجی صلاحیت میں اضافے کے لیے مزید پیسہ خرچ کرے گا۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہے، اور یقیناً اِس پر عملی کام شروع بھی ہو چکا ہوگا، لیکن پاکستان کو بھی اِس کے لیے زرِمبادلہ کی ضرورت ہوگی اور وہ اُسی صورت میں کمایا جا سکے گا اگر ہم اپنی برآمدات میں اضافہ کریں، آبادی پر قابو پائیں اور گورننس کے بنیادی مسائل کو حل کریں۔ یہ تینوں کام اُس کام سے زیادہ مشکل نہیں جو پاکستان نے دس مئی کو کر دکھایا تھا، یہ تینوں کام ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ایک طویل المُدّت پالیسی کو یکسوئی سے لاگو کیا جائے۔ اپنے دفاع کو ہم نے ایسے ہی نا قابلِ تسخیر بنایا تھا، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں فقط کامن سینس ہے۔ بھارت اگر جنگی جنون میں مبتلا ہے تو پاکستان ماہرِ امراض جنگی جنون ہے!