• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے سندھ کا پانی، غیرمنصفانہ تقسیم کی تاریخ

اس وقت پاکستان کے بالائی بڑے صوبے میں دریائے سندھ پر متعدد کینال بنانے پر سندھ بھر کے عوام شدیداحتجاج کررہے ہیں۔ اس ضمن میں احتجاجی لانگ مارچ ہورہے ہیں، مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونیکی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں اکثر شاہراہوں پر ٹریفک معطل ہے۔ سندھ میں یہ پہلی بار نہیں ہو رہا البتہ یہ ضرور ہے کہ اب سندھ کا احتجاج عروج پر پہنچ گیا ہے۔ اگر سندھ کیساتھ اس ایشو پر انصاف نہیں کیا جاتا تو کچھ پتہ نہیں کہ اس شدید ترین احتجاج کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان بنتے ہی سندھ کیساتھ اس قسم کی ناانصافیاں شروع ہوگئی تھیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ناانصافیاں انگریزوں کے دور حکومت میں بھی بالائی علاقوں کی قیادت کی طرف سے ہوتی تھیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریزوں کی حکومت کا رویہ کافی حد تک غیرجانبدارانہ تھا۔ میں آج اس تاریخ کے کچھ حوالے دونگا۔ مثال کے طور پر برصغیر کی تقسیم سے قبل پانی کی تقسیم پر برصغیر کے مختلف صوبوں کے درمیان انکے موقف کے بارے میں کئی بیانیے مشہور تھے لہٰذا 1920ء میں جب ستلج ویلی اور سکھر بیراج کے منصوبے زیرغور تھے تو کچھ حلقوں کی طرف سے ان منصوبوں کیلئے پانی کی دستیابی کے بارے میں شکوک اور شبہات ظاہر کئے گئے۔ علاوہ ازیں بہاولپور کی ریاست نے بھی احتجاج کیا کہ Non-Riparian علاقوں کو پانی فراہم کیا جارہا ہے اس عرصے کے دوران اس وقت ہندوستان کی حکومت نے پنجاب‘ بہاولپور اور بیکانیر کی ریاستوں کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ ایک معاہدے پر دستخط کریں جسے Sutlaj Valley Tripartite Agrement 1920 کہا گیا۔ بعد میں جب ستلج کے علاقے کے منصوبوں نے کام شروع کیا تو یہ بات نوٹ کی گئی کہ دریا سے ان منصوبوں کیلئے جو پانی فراہم کیا جارہا ہے وہ خاص طور پر ابتدائی خریف کے عرصے کے دوران پانی کی مطلوبہ مقدار سے کم ہے۔اس بات کی تحقیق کیلئے 1932ء میں ’’ستلج ویلی پروجیکٹ انکوائری کمیٹی قائم کی گئی‘ بعد میں اسی ایشو پر 1935ء میں اینڈرسن کمیٹی قائم کی گئی تاکہ وہ ستلج ویلی کے منصوبوں‘ سکھر بیراج اور پنجاب کی طرف سے تجویز کئے گئے دیگر منصوبوں میں پانی کی تقسیم کا جائزہ لے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ تو کیا گیا مگر آج تک اینڈرسن کمیٹی کی رپورٹ ظاہر نہیں کی گئی اور کیوں اسے آج تک چھپایا ہوا ہے؟ سنہ 1939ء میں سندھ کی سیلابی نہروں اور سکھر بیراج پر پنجاب کے منصوبوں سے ہونیوالے متعلقہ اثرات کے مدنظر سندھ نےپنجاب حکومت کیخلاف شکایت کی، اسکے بعد رائو کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے اپنی سفارشات 1942ء میں پیش کیں مگر رائو کمیشن کی رپورٹ بھی ابھی تک ظاہر نہیں کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو اسکے بعد بھی سندھ کیساتھ یہی صورتحال رہی۔ 1968ء میں سابق مغربی پاکستان کے گورنر نے بیراجوں سے پانی کی مقدار کے تعین‘ریزر وائر سے پانی جاری کرنے کے طریقہ کار‘ نیچے پانی روکنے اور زیر زمین پانی جاری کرنے کے سلسلے میں طریقہ کار طے کرنے کیلئے اختر حسین کی سربراہی میں پانی مختص کرنے اور نرخ مقرر کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی‘ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ یکم جولائی 1970ء کو پیش کی جب صوبے بحال ہوچکے تھے مگر اس رپورٹ پر کوئی توجہ نہ دی گئی اسکے نتیجے میں 1970ء میں فضل اکبر کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ دریائے سندھ اور اسکے معاون دریائوں میں پانی کی حصہ داری کا تعین کیا جائے‘ اس کمیٹی نے 1971ء میں رپورٹ پیش کی‘ اسی دوران احکامات آئے کہ چشمہ بیراج اور بعد میں تربیلا ریزر وائر کے اسٹوریج کا پانی انڈنٹ کی بنیاد پر صوبوں میں تقسیم کیا جائے مگر فضل اکبر کمیٹی کی سفارشات پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور پانی کی تقسیم حکومت پاکستان کے احکامات کے تحت صوبوں میں ہوتی رہی‘ اسکے بعد بھی کچھ اوپر نیچے ڈولپمنٹ ہوتی رہیں آخر 16مارچ 1991ء کو کراچی میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا اجلاس ہوا جو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں ہوا‘ اس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی تھے‘ اس اجلاس میں پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا مگر اس معاہدے کا بھی جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس معاہدے میں بھی غیر آئینی اور غیر قانونی تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں ایسی ایک غیر آئینی اور غیر قانونی تبدیلی کا میں عینی گواہ ہوں ایک دن یہ اطلاع آئی کہ اس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں لاہور میں واپڈا کےاجلاس میں کئی نئے کینالز اور ایک ڈیم بنانیکی منظوری دی گئی ہے۔ اجلاس کے چند دنوں کے بعد لاہور میں واپڈا کےچیئرمین کی طرف سے پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کراچی سے جن صحافیوں کو مدعو کیا گیا ان میں‘ میں بھی شامل تھا۔میں نے ان سے ایک سوال کیا کہ خبر آئی ہے کہ آپ نے کچھ نئی کینال اور ایک ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ارسا ایکٹ کے تحت یہ فیصلے کرنے کی مجاز فقط کونسل آف کامن انٹرسٹس (سی سی آئی) ہے۔ اسکے جواب میں چیئرمین واپڈا نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں پر اس وقت عمل ہوسکتا ہے جب سی سی آئی منظوری دے۔ مختصراً دوسرے دن واپڈا والے ہمیں تھل ایریا کی طرف لے گئے وہاں گریٹر تھرکینال کی کھدائی ہورہی تھی۔کراچی پہنچنے کے بعد میں نے اپنے اخبار میں خبر دی کہ کیسے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر پنجاب حکومت گریٹر تھل پروجیکٹ پر کام کررہی ہے۔ خبرکے بعد سندھ کے محکمہ ایریگیشن نے وفاقی حکومت کو خط لکھا جس پر وفاقی حکومت نے گریٹر تھل پروجیکٹ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا مگر یہ پروجیکٹ زندہ ہے اور اس پر مزید کام ہورہا ہے۔

تازہ ترین