حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستانی غلبے کو دنیا سراہ رہی ہے، دنیا پاکستانی پائلٹس کی مہارت اور عسکری قیادت کی حکمت عملی کی بھی گرویدہ ہو گئی ہے، پاکستانی قوم کو اس پر ناز ہے، ناز کیوں نہ ہو؟ آزمائش کی اس گھڑی میں پوری قوم یک جان نظر آئی بلکہ جو لوگ زیر عتاب تھے ان کے جذبے زیادہ جوان نظر آئے، ہمارے نوجوانوں نے نا قابلِ فراموش کردار ادا کیا، اب جب ہم دشمن کو زیر کر چکے ہیں تو ہمیں کچھ اپنے داخلی مسائل کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے، اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی ہے ؟ اس کا جواب یقیناً مثبت نہیں، ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور جو کچھ آئین میں لکھا گیا ہے اس پر من و عن عمل ہو۔ اسی سلسلے میں دوسرا سوال بہت اہم ہے، یہ سوال عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے۔ اس کے جواب میں کئی نئی ترامیم کے حوالے آ جائیں گے، کیا ہم ان حوالوں سے جان نہیں چھڑوا سکتے؟ اس سلسلے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے، جس دن عدالتوں سے انصاف ملنا شروع ہو گیا، عدلیہ کی آزادی پر سارے سوال ختم ہو جائیں گے۔ عدلیہ کا کام خوبصورت عمارتوں پر مشتمل عدالت یا بھاری تنخواہیں نہیں، عدلیہ کا بنیادی کام تو انصاف مہیا کرنا ہے۔ تیسرا سوال بنیادی انسانی حقوق کا ہے، آئین پاکستان کے پہلے چالیس آرٹیکل انہی بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہیں، جب حکومتیں ان بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کرتی ہیں تو پھر یہیں سے بے روزگاری کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، کہیں مہنگائی اور غربت کا چرچا ہوتا ہے، کہیں تعلیم اور صحت کے دروازے بند نظر آتے ہیں، کہیں نا جائز مقدمات کی بھر مار نظر آتی ہے، یہ سارے مناظر اس وقت دیکھنے کو ملتے ہیں، جب بنیادی انسانی حقوق سے روگردانی کی جاتی ہے، جب قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے، جب ہمارے مختلف محکموں کے لوگ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اسکے سدھار کیلئے کچھ نہ کچھ بہتر کرنا ہو گا، ہمیں اپنے شورش زدہ علاقوں کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، وہاں کے نوجوانوں کی باتیں سننی چاہئیں، انکے مسائل حل کرنے چاہئیں، خاص طور پر بلوچستان، گلگت بلتستان اور وزیرستان کے مسائل کا صحیح ادراک کرتے ہوئے انہیں حل کرنا چاہئے۔
چند روز پیشتر لاہور میں دانشوروں کے ساتھ قومی سلامتی کے سابق مشیر، سابق کور کمانڈر کوئٹہ جنرل ناصر جنجوعہ سے ایک خصوصی نشست ہوئی، اس نشست میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب باروزئی بھی شریک تھے، بلوچستان پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل ناصر جنجوعہ کہنے لگے ’’میں نے بلوچستان کے لوگوں کو گلے لگایا، ان سے محبت کی اور میں یہ بات یقین سے کہہ رہا ہوں کہ آپ بلوچستان کے لوگوں سے محبت کریں، وہ آپ کو کندھوں پہ اٹھا لیں گے۔ دل محبت سے جیتے جا سکتے ہیں، نفرت سے نہیں کیونکہ نفرت دوریاں پیدا کرتی ہے اور محبت قربتیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے مسائل اگر حل نہ کئے گئے اور محبت کی بجائے نفرت کی گئی تو مزید پڑھے لکھے نوجوانوں کو ورغلایا جائیگا‘‘۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب باروزئی کا کہنا تھا کہ’’بلوچستان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ جنہیں ووٹ دیتے ہیں، انہیں اسمبلیوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا اور جنہیں عوام مسترد کر دیتے ہیں، انہیں اسمبلیوں میں بٹھا دیا جاتا ہے‘‘۔
نواب باروزئی کی بات درست ہے، جس مسئلے کی نشاندہی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کی ہے، یہ مسئلہ سندھ سے ہوتا ہوا پنجاب تک پہنچ چکا ہے، اس کا بھی تدارک ہونا چاہئے تاکہ پاکستانی عوام کی نظروں میں صحیح جمہوریت نظر آئے، جب صحیح الیکشن ہوں گے تو جمہوری آزادیوں پر اٹھنے والے سوال خود بخود ختم ہو جائیں گے، اس سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں یکساں فضافراہم کرنا ہو گی، ہمارے ہاں جو سرکاری اہلکار یکساں فضا کو خراب کرنے کی کوشش کریں، ان کا بھی تدارک کرنا ہو گا، اگر ہم مذکورہ بالا مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر یقیناً ہر مرحلے پر پوری قوم ایک نظر آئے گی۔ قصہ مختصر! قانون کی حکمرانی بہت ضروری ہے، ہمیں حضرت علی ؓکا یہ فرمان ہر دم یاد رکھنا چاہئے کہ ’’کوئی معاشرہ کفر کی بنیاد پر تو قائم رہ سکتا ہے، ظلم اور نا انصافی کی بنیاد پر نہیں‘‘۔ بقول اقبال کہ
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو