• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں عدالتی نظام طویل عرصے سے چیلنجز اور مسائل کی آماجگاہ رہا ہے۔ انصاف میں تاخیر، مقدمات کا انبار، عدالتی وسائل کی کمی، عوامی اعتماد کا فقدان اور شفافیت کے مسائل ایسے عناصر ہیں جو نہ صرف عام شہری کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ریاست کےنظام انصاف پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔ ایسے میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے جسٹس اینڈ لیگل ریفارمز کمیشن کے تحت حالیہ تقریر میں عدالتی اصلاحات کا جو خاکہ پیش کیا گیا، وہ بلاشبہ پاکستان کے عدالتی نظام میں ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔

پس منظر: عدالتی نظام کی موجودہ صورتحال

پاکستان کی عدالتیں لاکھوں مقدمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں میں سالہا سال مقدمات زیرِ التوا رہتے ہیں، جن میں کئی دیوانی، فوجداری، خاندانی اور تجارتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ سائلین برسوں تک عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں، اور اکثر انصاف انکے زندہ رہنے سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ اس تاخیر کا سبب صرف عدالتی عمل نہیں بلکہ نظامِ انصاف سے جڑے تمام فریقین — وکلا، تحقیقاتی ادارے، پولیس، سرکاری وکیل اور عدالتی عملہ ہیں۔ماضی میں بھی مختلف عدالتی اصلاحاتی کمیشنز اور کمیٹیاں بنائی گئیں، سفارشات پیش کی گئیں، لیکن اُن پر عملدرآمد ہمیشہ سست روی کا شکار رہا۔ ایسے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی موجودہ اصلاحاتی مہم نہ صرف وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ ایک سنجیدہ عزم کی غمازی بھی کرتی ہے۔

اصلاحات کا بنیادی خاکہ

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اینڈ لیگل ریفارمز کمیشن کی تقریب میں اپنی تقریر میں جس منصوبہ بندی کا اعلان کیا، اس میں واضح طور پر چار اہم ستون نظر آتے ہیں۔

1۔مقدمات کا فوری اور بروقت فیصلہ:چیف جسٹس نے زور دیا کہ زیرِ التوا مقدمات کا بوجھ کم کرنا اولین ترجیح ہے۔ اس مقصد کیلئےجلد سماعت کرنیوالی عدالتوں (Fast-Track Courts) کے قیام کا اعلان کیا گیا، جن میں خاص طور پر خواتین، بچوں، اور پسماندہ طبقات کے مقدمات کو ترجیح دی جائیگی۔

2۔ ڈیجیٹل نظام کا فروغ: عدالتوں میں فائلوں کے انبار، ریکارڈ کی غیر موجودگی یا گمشدگی، اور پیشیوں کی معلومات کی عدم دستیابی جیسے مسائل کو ختم کرنے کیلئے چیف جسٹس نے عدالتی ریکارڈ کی مکمل ڈیجیٹائزیشن کا اعلان کیا۔ ای- کورٹس، ویڈیو لنک پر سماعت، آن لائن فائلنگ اور مقدمات کی آن لائن ٹریکنگ جیسے اقدامات سے شفافیت میں اضافہ ہو گا اور عدالتی عمل میں تیزی آئیگی۔

3۔ متبادل نظامِ انصاف (ADR):جناب چیف جسٹس نے متبادل نظامِ انصاف پر زور دیا، جو دیوانی اور تجارتی مقدمات کے جلد تصفیے کیلئے ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اس سے عدالتی بوجھ کم ہو گا اور سائلین کو کم وقت میں حل ملے گا۔

4۔ عدالتی عملے کی تربیت اور احتساب:چیف جسٹس صاحب نے واضح کیا کہ ججز اور عدالتی عملے کی تربیت لازمی ہوگی تاکہ وہ جدید قوانین، ٹیکنالوجی اور عدالتی اقدار سے آگاہ رہیں۔ اسی کے ساتھ احتساب کا نظام بھی نافذ کیا جائے گا تاکہ غیر موثر یا بدعنوان عناصر کا محاسبہ ممکن ہو۔

اصلاحات کی اہمیت

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے اقدامات کی تحسین اس وجہ سے بھی کی جانی چاہیے کہ یہ اصلاحات محض بیانات کی حد تک محدود نہیں بلکہ ان پر باقاعدہ عملدرآمد کی حکمت عملی بھی پیش کی گئی ہے۔ ماضی میں اصلاحاتی اعلانات کو عمل میں لانے میں تساہل برتا گیا، لیکن موجودہ چیف جسٹس نے عملی قدم اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے مقررہ وقت میں نتائج دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

عدلیہ میں اعتماد کی بحالی:پاکستان میں عام شہریوں کا عدالتوں پر اعتماد کم ہوتا جا رہا تھا۔ یہ اصلاحات نہ صرف عوام کو فوری ریلیف دینے کا ذریعہ بنیں گی بلکہ عدالتی نظام کی ساکھ کو بھی بحال کریں گی۔ جب ایک عام آدمی دیکھے گا کہ اُس کا مقدمہ مہینوں میں حل ہو رہا ہے، وکیل کا خرچہ کم ہو رہا ہے، اور انصاف میں شفافیت آ رہی ہے، تو وہ قانون سے بھاگنے کی بجائے اس پر اعتماد کرے گا۔

وکلا اور سول سوسائٹی کا کردار:چیف جسٹس نے وکلا برادری کو بھی اصلاحات میں اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے۔ وکلا کو چاہیے کہ وہ غیر ضروری التوا کی روش ترک کریں اور مقدمات کو جلد نمٹانے میں تعاون کریں۔ اسی طرح سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام بھی عدلیہ کی مدد کریں تاکہ یہ اصلاحاتی عمل مستقل اور مؤثر ہو۔

ایک متحرک، جدید اور عوامی عدلیہ کی جانب سفر: جناب چیف جسٹس کا یہ اصلاحاتی ایجنڈا صرف عدالتی نظام کی بہتری کا اعلان نہیں بلکہ ایک وژن ہے جو پاکستان کو ایک جدید، عوامی اور انصاف پر مبنی معاشرہ بنانے کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ انہوں نے جو اصول واضح کیے ہیں — شفافیت، رسائی، بروقت انصاف، اور احتساب — یہی کسی بھی جمہوری نظام کی بنیاد ہوتے ہیں۔

نتیجہ

چیف جسٹس آف پاکستان کی عدالتی اصلاحات کا اعلان بلاشبہ ایک تاریخی قدم ہے۔ یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک عزم، ایک وژن، اور ایک عملی راستہ ہے جس پر چل کر ہم انصاف کو واقعی ہر در پر پہنچا سکتے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ تمام فریقین — عدلیہ، حکومت، وکلا، سول سوسائٹی اور عوام — اس راستے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ عدالتی نظام کو بہتر بنانا محض عدلیہ کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری قوم کی اجتماعی کوشش ہے۔

تازہ ترین