• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! بلوچستان کے ضلع خضدار میں آرمی پبلک اسکول کی بس پر خودکش حملہ میں گزشتہ ہفتے 3 بچوں سمیت 5افراد شہید اور 53زخمی ہو گئے۔ بس مکمل تباہ ہو گئی جبکہ قریبی دکان اور ٹرک کو بھی نقصان پہنچا۔ 8زخمیوں کی حالت نازک بتائی گئی۔ دہشتگردی کی اس گھنائونی واردات پر امریکہ،چین اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھی علاقائی اور عالمی امن کے حوالے سے یکساں طور پر فکرمندی اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔یہ حقیقت تو اب پوری دنیا پر کھل چکی ہے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں میں گزشتہ 3دہائیوں سے دہشتگردی کو فوکس کئے ہوئے ہے جس کا موقع اسے امریکی نائن الیون کے بعد افغانستان میں نیٹو فورسز کی شروع کی گئی دہشتگردی کے خاتمہ کی جنگ میں پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کے باعث حاصل ہوا تھا۔ اسی تناظر میں بھارت نے کابل کی امریکی کٹھ پتلی کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور ’’را‘‘ کے دہشتگردوں کی افغان سرزمین پر تربیت کی۔ اسکے ساتھ ساتھ بھارت نے پاکستان کے اندر بالخصوص بلوچستان میں کلبھوشن یادیو کی سربراہی میں اپنا دہشتگردی کا نیٹ ورک قائم کیا جس کے ذریعے وہ اپنے تربیت یافتہ دہشتگرد پاکستان میں داخل کرتا اور پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کی سہولت کاری کے ساتھ وہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشتگردی کراتا رہا۔ شومئی قسمت کہ اسی دوران بلوچ قوم پرست لیڈر نواب اکبر بگٹی کی ایک آپریشن میں ہلاکت کے ردعمل میں ناراض بلوچ نوجوانوں نے بی ایل اے کے پلیٹ فارم پر بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک شروع کر دی جسے موقع غنیمت جان کر بھارت بی ایل اے کی فنڈنگ اور سرپرستی کرنے لگا اور بھارتی نیٹ ورک کے ذریعے بی ایل اے کا رخ دہشتگردی کی جانب موڑ دیا گیا۔ اسی طرح بھارت نے پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو بھی پاکستان میں اپنے دہشتگردانہ مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بے شک بھارتی سرپرستی میں ہی گزشتہ 25 سال کے دوران اب تک صرف بلوچستان میں دہشتگردی کے 300سے زائد واقعات ہو چکے ہیں جن میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھی شامل ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں عبرتناک شکست اور ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارت کی جانب سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشتگردی کو بڑھانے کا منصوبہ بعیداز قیاس نہیں تھا اور ہمارے سیکورٹی اداروں کو بھی اس کا مکمل ادراک ہے جسکے باعث بلوچستان اور کے پی کے میں سیکورٹی سخت بھی کی گئی ہے۔ اسکے باوجود بھارت کو پاکستان میں دہشتگردی کیلئے اپنے ایجنٹوں کو منظم اور متحرک کرنے کا موقع مل رہا ہے جو موجودہ صورتحال میں ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی قیادتیں دہشتگردی اور بھارتی جنگی عزائم کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑی ہیں بالخصوص چین علانیہ ہماری حمایت کر رہا ہے۔ بھارت تو یقیناً اپنی سازشوں سے باز نہیں آئیگا۔ اس لئے اسے دہشتگردی کیخلاف بھی آپریشن بنیان مرصوص کی طرح منہ توڑ جواب ملنا چاہیے۔

جنوبی ایشیا ایک بار پھر اس موڑ پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف پاکستان کا امن کا پیغام ہے اور دوسری طرف خونین ہندوتوا کے بھارت کا جنگی جنون۔بھارت نے ایک بار پھر اپنی پرانی روش دہراتے ہوئے ریاستی دہشتگردی،خفیہ سازشوں اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی مگر اس بار حالات مختلف تھے۔ بھارت کو نہ صرف عسکری میدان میں ذلت آمیز شکست ہوئی بلکہ اسکے پشت پناہ اسرائیل کو بھی عالمی سطح پر خفت اٹھانا پڑی۔ اسرائیلی ہتھیار، تربیت یافتہ مشیراور ٹیکنالوجی کے باوجود بھارت پاکستانی عزم اور چینی ٹیکنالوجی کے اشتراک کے سامنے بے بس نظر آیا۔ دشمن کے طیارے گرے،ڈرون تباہ ہوئے اور پاکستان نے نہ صرف سرحدوں کا دفا ع کیا بلکہ دشمن کو واضح پیغام دیا کہ اب پاکستان وہ نہیں رہا جسے کمزور سمجھا جائے۔ مگر اس ساری صورتحال میں جس پہلو کو سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے وہ پاکستان کی بالغ نظری ہے۔ ہم نے دنیا پر یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری طاقت امن کیلئے ہے، نہ کہ جارحیت کیلئے۔ دشمن نے جنگ بندی کی پیشکش کی توہم نے اسے قبول کیا، مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور دشمن کے ساتھ بھی ایک پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کی، کیونکہ ہمیں اپنے عوام کا مستقبل اس خطے کا امن اور آئندہ نسلوں کی سلامتی عزیز ہے۔ عالمی برادری خاص طور پر امریکہ جو اس جنگ بندی میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے، صرف جنگ رکوانے سے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا۔ اگر امریکہ واقعی خطے میں پائیدار امن چاہتا ہے تو اسے ان بنیادی مسائل کا حل نکالنا ہو گا جس میں مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل، پانی کی منصفانہ تقسیم اور بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا خاتمہ شامل ہے۔ جب تک کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت نہیں ملتا، اس خطے میں امن صرف ایک دھوکہ ہو گا۔ بھارت کی جانب سے پانی پر قبضے کی کوششیں بھی ایک ایٹمی طاقت کو اشتعال دلانے کے مترادف ہیںاور بھارتی خفیہ ایجنسیاں جو پاکستان میں دہشتگردی کو ہوادیتی ہیں، انکے خلاف اگر عالمی طاقتیں خاموش رہیں تو پھر یہ خاموشی جرم بن جائیگی۔ پاکستان نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے، نہ صرف دفاع کیا بلکہ امن کا دروازہ بھی کھلا رکھا۔ اب امریکہ کی بار ی ہے۔ اگر وہ واقعی ثالث ہے تو انصاف کا مظاہرہ کرے، صرف بیانات اور پریس کانفرنسوں سے آگے بڑھ کر مسئلے کی جڑ پر ہاتھ ڈالے اور بھارت پر دبائو ڈالے کہ وہ کشمیر ،پانی اور دہشتگردی کے معاملات پر بامعنی مذاکرات کرے۔ بھارت کیلئے ہمارا پیغام واضح ہے کہ امن ہمارا انتخاب ہے، مگر بزدلی ہماری فطرت نہیں۔ اگر پاکستان کے خلاف دوبارہ کسی سازش یا جارحیت کی کوشش ہوئی تو انجام بھارت کے وہم وگمان سے بدتر ہو گا۔

تازہ ترین