75 برس کی ایک ضعیف ماں، جو لکھنؤ کی پُرانی گلیوں میں پلی بڑھی، آج جب پاکستان میں بیٹھ کر اپنے ماضی کے دریچوں کو کھولتی ہیں تو آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں۔ اُن کی آواز لرزنے لگتی ہے جب وہ بتاتی ہیں کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران کیسے بھارتی پولیس لکھنؤ میں اُن کی بہن کے گھر بے دھڑک گھس آئی، بغیر وارنٹ، بغیر اجازت، صرف اس لیے کہ کسی نے پولیس کو جھوٹ کہہ دیا تھاکہ ان کی بہن پاکستان سے آئی ہے۔
سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا:وہ کب آئی؟ کیوں آئی؟ آج کل تو نہیں آئی ہوئی؟ پولیس کو بتایا گیا کہ وہ آخری دفعہ دس سال قبل بھارت آئی تھیں جس کےبعد بھی بھارتی پولیس کی جانب سے غداری کےالزامات، پاکستانیوں کو گالیاں، طعنے، اور دھمکیاں سننے کو ملی تھیں۔
یہ صرف میری والدہ کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ہر اُس مسلمان کی کہانی ہے جو آج بھی بھارت میں جی رہا ہے، لیکن ’’رہ‘‘ نہیں پا رہا۔ میرے ماموں، ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد، علی گڑھ یونیورسٹی جیسے ادارے سے پی ایچ ڈی کی، وہیں پروفیسر بنے، مگر اُن کا ’’جرم‘‘ صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ اُن سے ہر وقت اُن کی حب الوطنی کا ثبوت مانگا گیا۔ اُنہیں مجبور کیا گیا کہ پاکستان کو بُرا کہیں، بھارت کو سراہیں، اور اپنی پہچان، اپنی تاریخ، اپنی شناخت کو دفن کر دیں۔آخر ایک دن، دل برداشتہ ہو کر، صرف باون سال کی عمر میں، اُن کا دل بند ہو گیا۔ وہ رخصت ہو گئے۔ ایک ایسے ملک سے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے، لیکن کبھی قبول نہیں کیے گئے۔
یہی ہے ہندوستانی مسلمانوں کا حال۔ اُن سے ہر روز ان کی وفاداری کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔ انہیں بار بار یاد دلایا جاتا ہے کہ تم دوسرے ہو،تم باہر کے ہو،تم پاکستان کے ہو۔ یہ سب کچھ اس سرزمین پر ہو رہا ہے جہاں اُن کے آبا ئو اجداد نے سینکڑوں سال حکومت کی، تہذیب پیدا کی، زبانوں کو سنوارا، ادب کو بلند کیا۔یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں رک کر سوچنا ہوگا: اگر پاکستان نہ ہوتا تو ہمارا کیا ہوتا؟
کیا ہم بھی آج اپنی وفاداری کے سرٹیفکیٹ لیے بھارت کے تھانوں میں کھڑے ہوتے؟ کیا ہم بھی ’’پاکستان سے محبت نہ کرنے‘‘ کے حلف نامے دیتے؟ کیا ہمارے بچوں کو بھی اپنی شناخت چھپانی پڑتی؟
حقیقت یہ ہے کہ دو قومی نظریہ ایک تاریخی سچائی ہے۔ یہ کسی ’’سیاسی چالاکی‘‘ کا نام نہیں۔ یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں، جن کا مذہب، تمدن، ثقافت، تاریخ اور ہیرو سب مختلف ہیں۔ اور جب ایک قوم کو زبردستی کسی اور کی تہذیب میں ضم کرنے کی کوشش کی جائے، تو وہ یا تو مر جاتی ہے، یا لڑ کر اپنی آزادی حاصل کرتی ہے جیسے ہم نے کی۔
آج بھارت میں مسلمان صرف مسلمان ہونے کی سزا کاٹ رہا ہے۔ آپ کو شاید فلموں میں نظر آئے کہ مسلمان اداکار مسکرا رہے ہیں، ایوارڈ جیت رہے ہیں، مگر حقیقت کیا ہے؟شاہ رخ خان جیسے سپر اسٹار کو بھی یہ وضاحت دینی پڑتی ہے کہ’’میری بیوی ہندو ہے، میرے بچے گائے کا گوشت نہیں کھاتے‘‘۔ عامر خان کو یہ کہنے پر کہ’’بھارت میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے‘‘، ملک دشمن کہا گیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک آج صرف مسلمان ہونے کی سزا کے طور پر بھارت بدر ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے بھارت کو اربوں روپے کا منافع دیا، لیکن آج بھی ان کی ’’وفا داری‘‘ مشکوک ہے، صرف اس لیے کہ ان کا نام خان یا نائیک ہے۔
ادھر عام مسلمان کی حالت اُس سے بھی بدتر ہے۔ صرف ایک افواہ پر کہ فلاں مسلمان نے گائے کا گوشت کھایا ہے، اُس کو گاؤں کے بیچ سڑک پر گھیر کر مار دیا جاتا ہے۔ نہ مقدمہ، نہ عدالت، نہ انصاف۔ اخلاق احمد، پہلو خان، تبریز انصاری۔ یہ وہ نام ہیں جو اب صرف خبروں کا حصہ ہیں، لیکن ان کے خاندان آج بھی خون کے آنسو روتے ہیں۔ اور اب، مئی 2025کی حالیہ پاک بھارت جنگ نے بھارت کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ ایک طرف جنگ کے دوران بھارتی میڈیا پر مسلمانوں کو غدار اور پاکستانی ایجنٹ کہا جا رہا تھا، دوسری طرف ان سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ثابت کرو تم بھارت کے وفادار ہو، ورنہ پاکستان چلے جاؤ۔مساجد پر حملے، مسلمان علاقوں کی ناکہ بندی، یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں اجتماعی گرفتاریاں۔ یہ سب ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر ہو رہا تھا۔ ایسے حالات میں، ہمیں پاکستان کی قدر کرنی ہو گی۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان ہماری شناخت ہے، ہماری آزادی ہے، اور ہمارے حقِ خود ارادیت کا نتیجہ ہے۔ہمیں اپنے بچوں کو صرف یہ نہیں سکھانا کہ پاکستان کیسے بنا، بلکہ یہ بھی سکھانا ہے کہ پاکستان کیوں بنا اور اگر نہ بنتا، تو آج ہم کہاں ہوتے۔ کاش وہ سب مسلمان جو آج بھارت کی گلیوں میں خوف سے سہمے بیٹھے ہیں، وہ ایک بار پاکستان کی آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں تو شاید اُنہیں بھی احساس ہو کہ آزادی کیا ہوتی ہے، اور وطن کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ پاکستان ایک خواب نہیں یہ قربانیوں سے حقیقت میں ڈھلا ہوا ایک ’’انمول تحفہ‘‘ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے محفوظ رکھیں، سنواریں، اور فخر سے کہیں: پاکستان ہمارا تھا، ہمارا ہے، اور ہمیشہ ہمارا رہے گا۔