27مئی 1998ء کی شام سورج اپنی تمام رعنائیاں سمیٹ کر مارگلہ کے پہاڑوں کی اوٹ میں غروب ہو رہا تھا، سائے تیزی سے بڑھ رہے تھے، دن کے اجالے تاریکی میں ڈوب رہے تھے، شہر اقتدار میں قومی سلامتی کے حوالے سے اہم فیصلے کئے جا رہے تھے مجھے ڈاکٹر کیو خان لیبارٹریز سے انجینئر فاروق کی کال موصول ہوئی کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر آپ سے فوری طور پر ملنا چاہتے ہیں۔ میں سینئر صحافی سہیل عبدالناصر مرحوم کے ہمراہ بھاگم بھاگ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز پہنچا تو دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے آفس میں بے چینی و اضطراب کے عالم میں ٹہل رہے ہیں انہیں سرکاری طور بتا دیا گیا تھا کہ28مئی1998کی سہ پہر پاکستان چاغی کے پہاڑ میں ایٹمی دھماکے کر رہا ہے لیکن ان کو چاغی کے پہاڑ جہاں ایٹمی دھما کے کئے جانے تھے لے جانے کیلئے ہوائی جہاز فراہم نہیں کیا جا رہا تھا میں نے ڈاکٹر خان کو 13سال میں پہلی بار اضطراب کے عالم میں دیکھا ان سے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا اعزاز چھیننے کی شعوری کوشش کی جا رہی تھی چونکہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے تحت ایٹمی دھماکے کئے جا رہے تھے اس لئے اس ادارے کے کچھ لوگ سارا کریڈٹ خود حاصل کرنے کیلئے ڈاکٹر خان کو ایٹمی دھماکوں کی جگہ سے دور رکھنا چاہتےتھے۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر خان کے ’’دوستوں‘‘ نے نہ صرف ان کو چاغی تک پہنچنے کیلئے ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر کا بندوبست کر دیا بلکہ ایٹمی دھماکوں کی جگہ پر ان کی موجودگی کو بھی یقینی بنایا اس دوران ڈاکٹر خان کو اطلاع موصول ہوئی کہ انہیں چاغی لے جانے کیلئے جہاز کا انتظام کر دیا گیا ہے تو ڈاکٹر خان کا چہرہ کھل اٹھا اور آفس ڈاکٹر خان کے قہقہوں سے گونجنے لگا۔ انہوں نے بتایا کہ ایٹمی دھماکوں کے موقع پر بھارت کی طرف سے ممکنہ حملے کے پیش نظر سرحدوں پر میزائل نصب کر دئیے گئے ہیں آپ بے شک خبر شائع کر دیں۔ پاکستان کا ایٹمی قوت بننے کا سفر کم و بیش 8سال میں مکمل ہوا تھا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 1984ء میں ایک انٹرویو میں قومی سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا انکشاف کر کے پوری دنیا میں کھلبلی مچا دی تھی ڈاکٹر خان خود بھی چاہتے تھے کہ کوئی ان سے 95فیصد یورینیم افزودہ کرنے کا کریڈٹ نہ چھین لے کیونکہ یورینیم کی افزودگی کے بغیر ایٹم بم بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب انہوں نے پہلا انٹرویو دیا اس وقت ان تک کسی صحافی کی رسائی ممکن نہیں تھی میراان سے پہلا رابطہ 1985میں ہوا اور وہ راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میں ایک استقبالیہ میں آنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس وقت سیاست دانوں کی بجائے سائنسدانوں کے درمیان ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا کریڈٹ حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی بعد ازاں اس دوڑ میں سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی شریک ہو گئے۔ جہاں تک ایٹمی پروگرام کے کریڈٹ کا تعلق ہے اس سے ذوالفقار علی بھٹو کو محروم نہیں کیا جا سکتا لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نےامریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچا یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ لیبارٹریز میں’’کولڈ ٹیسٹ‘‘ کر کے جنرل ضیاء الحق کو بتا دیا کہ پاکستان نیوکلیئر پاور بن گیا ہے لیکن دنیا اسی وقت کسی ملک کی ایٹمی قوت تسلیم کرتی ہے جب تک وہ ’’ہاٹ ٹیسٹ‘‘ نہ کرے۔ ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف تک کئی حکومتیں آئیں لیکن کسی حکومت کو ایٹمی دھماکہ کرنے کی جرات نہ ہوئی یہ تو بھلا ہو بھارت کا جس نے 11مئی 1998ء کو پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے کا جواز فراہم کر دیا۔ اگر1998 ء میں نواز شریف وزیر اعظم نہ ہوتے تو پاکستان کبھی ایٹمی کلب کا رکن بننے کی جرات نہ کرتا۔ یہ جراتمند نواز شریف ہی تھا جس نے امریکی صدر بل کلنٹن کی ٹیلی فون کالز کی پروا نہیں کی اور اربوں ڈالر کی امداد کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا۔ اس دوران برمنگھم میں جی 7-ممالک کے اجلاس میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا تو پاکستان کو عدم تحفظ کی صورت حال میں ایٹمی دھماکوں کا جواز مل گیا۔ بل کلنٹن نے نواز شریف کو 4اور ٹونی بلیئر نے 3ٹیلی فون کئے جب کہ نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بل کلنٹن کو خود فون کر کے پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے کے بارے میں آگاہ کیا۔ نواز شریف نے بل کلنٹن کو کرٹسی کال کر کے بتایا کہ ’’پاکستان ایٹمی قوت بن گیا ہے انہوں نے ان کی بات کو نہیں مانا‘‘۔ ضیاء الحق کے دور میں امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بھنک پڑ گئی تھی اس وقت کے وزارت خارجہ کے سیکرٹری آغا شاہی جو کہوٹہ پروجیکٹ کمیٹی کے رکن بھی تھے 1979ء میں ایک وفد کے ہمراہ واشنگٹن کے دورے پر گئے تو امریکی حکام نے انہیں وفد سے الگ ون آن ون میٹنگ کے دوران دھمکی دی کہ ’’ہمیں اطلاع ملی ہے کہ پاکستان ایٹم بم بنا رہا ہے پاکستان موت کی وادی میں داخل ہو رہا ہے ہم آپ کو ایٹم بم بنانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ آغا شاہی نے اپنی عینک ٹھیک کی، اپنا سگار سلگایا اور پر اعتماد لہجے میں اپنے چہرے پر مسکراہٹ کے پھول بکھیرتے ہوئے امریکیوں کے خدشات دور کرنے کی کوشش کی ’’ عالی جا ہ آپ کیوں فکر مند ہو رہے ہیں پاکستان تو ایک بائیسکل نہیں بنا سکتا ایٹم بنانا تو بہت دور کی بات ہے‘‘۔ آغا شاہی نے پاکستان واپس پہنچتے ہی جنرل ضیاء الحق کو امریکی دھمکی سے آگاہ کر دیا جس کے بعد جنرل ضیا ء الحق نے ڈاکٹر اشفاق احمد کو بلا کر ایٹمی دھماکہ کرنے کیلئے جگہ کا انتخاب کرنے کی ہدایت کی۔ اکتوبر1979 ء میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کے لئے سرنگ تیار کرنا شروع کر دی گئی پھر 19سال بعد اس مقام پر 6ایٹمی دھماکے کئے گئے۔ (جاری ہے)