• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈمرل (ر) جاوید اقبال پاکستان بحریہ کے اسپیشل سروسز گروپ کا حصہ رہے۔ 1998ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد تیونس میں پاکستان کے سفیر تعینات کئے گئے۔ہمیشہ سویلین بالادستی اور آئین کا پرچار کرتے رہے، تحریک انصاف کے وائس چیئرمین کے طور پر کام کیا مگر بعدازاں عمران خان کی حقیقت آشکار ہونے پر پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرلیں۔ انہوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں نہایت سنگین انکشافات کئے ہیں۔ ایڈمرل (ر) جاوید اقبال فرماتے ہیں، سندھ طاس معاہدہ پاکستان کیخلاف تخریب کاری تھی۔ ایوب خان نے تین دریا بھارت کو بیچ دیئے کیونکہ انہوں نے امریکہ کو باپ بنا رکھا تھا اور وہ امریکی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی پر عاشق تھے۔ کبھی وہ اسکو کالا گھوڑا دیتا تھا،کبھی اس طرح ٹوپی پہناتا تھا جس طرح مولانا قوی پہناتے ہیں لڑکیوں کو۔ یہ انکی محبتیں کبھی ایک خان کی، کبھی یحییٰ خان کی کبھی عمران خان کی، یہ پاکستان ان کی محبتوں کیلئے بنا ہے؟ اسی انٹرویو کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان جب کرکٹر تھے اور زخمی ہوگئے تو انکے خاندان نے لندن میں فلیٹ لیکر دیاجس میں ایک برطانوی لڑکی نہ صرف انکی مالش کیا کرتی بلکہ دیگر خدمات بھی مہیا کرتی۔ پہلے فوجی حکمران ایوب خان کی جیکولین کینیڈی میں دلچسپی کی افواہیں بھی زیر گردش رہیں تاہم انکا جو معاشقہ زبان زد عام رہا ،وہ کسی اور خاتون سے متعلق ہے۔ یہ بات ہے مئی 1960ء کی جب ایوب خان ملکہ برطانیہ سے ملنے لندن گئے ہوئے تھے بکنگھم شائر میں واقع لارڈ استور کی پرتعیش جاگیر جو Clivedenاسٹیٹ کہلاتی تھی ،یہاں سوئمنگ پول میں ہونیوالی محفلوں میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اور غیر ملکی مہمانوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔ یہاں ہونیوالی ایک پارٹی کے دوران ایوب خان کی 19سالہ پرکشش خاتون کرسٹین کیلرسے پہلی بار ملاقات ہوئی ۔ معاصر انگریزی اخبار میں شائع ہونیوالی تفصیلات کے مطابق ایوب خان کو اس پارٹی میں مدعو نہیں کیا گیا تھا بلکہ برطانیہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر لیفٹیننٹ جنرل (ر)جنرل یوسف آفریدی کو یہاں آنیکی دعوت دی گئی تھی اور چونکہ جنرل ایوب خان برطانیہ آئے ہوئے تھے تو پاکستانی ہائی کمشنر انہیں بھی ساتھ لے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ایوب خان کا قصور یہ تھا کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھے۔ جنرل (ر)یوسف آفریدی کا شمار جنرل ایوب خان کے نہایت قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔ انگریزوں کے خدمت گار خان بہادر شربت خان جنہوںنے لورا لائی کے پولیٹکل ایجنٹ اور قلات کے وزیراعظم کے طور پر خدمات سرانجام دیں، انکے صاحبزادے یوسف خان آفریدی نے ایوب خان کی طرح رائل ملٹری اکیڈمی سینڈھرسٹ کے ذریعے انڈین نیشنل آرمی میں شمولیت اختیار کی۔قیام پاکستان کے وقت یوسف آفریدی، صاحبزادہ یعقوب علی خان کی کیولری یونٹ کے سکینڈ ان کمانڈ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے 102بریگیڈ بنوں کو کمانڈ کیا۔ ڈھاکہ میں تعینات 14ویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ رہے۔ ایبٹ آباد میں 7ویں ڈویژن کے GOCرہے ،جی ایچ کیو میں سی جی ایس کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور پھر کوئٹہ میں 9ویں ڈویژن کو کمانڈ کیا۔بطور کمانڈر انچیف ایوب خان کی مدت ملازمت جنوری 1955ء میں ختم ہورہی تھی اور یہ باتیں زبان زد عام تھیں کہ یوسف آفریدی بری فوج کے نئے سربراہ ہونگے۔ میجر جنرل سید وجاہت حسین اپنی کتاب ’’Memories of a Soldier‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایو ب خان نے اچھی شہرت کے حامل افسر جنرل یوسف آفریدی کو نہایت پراسرار اندازمیں فوج سے قبل ازوقت ریٹائر کردیا۔ فوج کے پروٹوکول اور روایات کے برعکس جنرل یوسف کو نہایت تضحیک آمیز انداز میں ریٹائر کرنیکی وجہ یہ تھی کہ بھارت میں ایک تقریب کے دوران جنرل یوسف خان نے یہ کہہ دیا کہ جب وہ فوج کے کمانڈر انچیف بنیں گے تو پاک بھارت تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کرینگے اور یہی بات جنرل ایوب خان کو ناگوار گزری۔ بعدازاں جب ایوب خان نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی تو اس زیادتی کا ازالہ کرنے کیلئے اپنے پرانے دوست یوسف آفریدی کو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر تعینات کردیا ۔19سالہ خوبرو حسینہ کرسٹین کیلر خود کو ماڈل کے طور پر متعارف کروایا کرتی تھیں مگر برطانوی میڈیا انہیں طوائف قرار دیتا ہے۔ جب کرسٹین کیلر کے برطانوی وزیر جنگ جان پروفومو کیساتھ تعلقات کی خبریں سامنے آئیں تو اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال آگیا کیونکہ کرسٹین کیلر کا نام روسی خفیہ ادارے KGB کے انڈر کور ایجنٹ ملٹری اتاشی میجر Yevgeny Ivanov کیساتھ بھی لیا جارہا تھا۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اور ہنی ٹریپ کے ذریعے قومی راز اگلوائے جاتے تھے۔ جان پروفومو جو پہلے سے شادی شدہ تھے ،انہوںنے پہلے تواس خاتون کیساتھ تعلقات سے یکسر انکار کیا مگر بعد ازاں ایوان میں جھوٹ بولنے کا اعتراف کرلیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے کرسٹین کیلر سے تعلقات کے دوران قومی سلامتی کے معاملات پر سمجھوتہ نہیں کیا،بہر حال جان پروفومو کو مستعفی ہونا پڑا،ان کا ٹرائل کیا گیا۔ اس اسکینڈل کی مرکزی کردار کرسٹین کیلر لب کشائی نہ کرتیں تو شاید ایوب خان کے عشق ممنوع کی تفصیل معلوم نہ ہوپاتی مگر 1963ء میں اسکے انٹرویو نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس انٹرویو میں اس نے بتایا کہ کلائیوڈن میں ہونیوالی پارٹی کے مہمانوں میں پاکستان کے صدر ایوب خان بھی شامل تھے۔ مجھے ایوب خان بہت پسند آئے ۔وہ انگریزوں سے زیادہ انگریز تھے۔روسی ایجنٹ آئیونوف کی طرح وہ ایک حقیقی مرد ہیں،توانا،پرتپاک اور ناقابل یقین مردانہ وجاہت کے حامل ،اس عمر کے افراد میں یہ خصوصیات کم ہی پائی جاتی ہیں۔ پانی میںفن گیمز کے دوران میں نے انکی قربت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔جب یہ تفصیلات برطانوی اخبارات کی زینت بنیں تو پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر نے خط لکھ کر تشویش کا اظہار کیا۔ روئیداد خان نے اپنی کتاب The British Papersمیں اس ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکیومینٹ کو نقل کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان خبروں کی اشاعت کے بعد کسی برطانوی اخبار کیخلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر نہ کیا گیا۔ پاکستانی اخبارات جو بدترین سنسرشپ کی زد میں تھے ،ان میں بھی اس اسکینڈل کی تفصیلات شائع ہوئیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرسٹین کیلر کے دعوے محض الزامات نہیں تھے ۔ایڈمرل صاحب کا سوال واقعی بہت اہم ہے۔ ایوب خان ،یحییٰ خان اور عمران خان۔کیا یہ ملک ان خوانین کے معاشقوں کیلئے بنا ہے؟

تازہ ترین