• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل کے بدھ (4جون 2025ء) کو منعقدہ اجلاس میں چاروں صوبوں کی موثر نمائندگی اور فیصلوں پر اتفاق کی صورت میں برسوں سے غیر یقینی کیفیت سے دوچار قوم کو سیاسی استحکام کا ایسا اشارہ ملا ہے جسے بھرپور یقین میں بدلنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو وقتی اختلافات و تحفظات سے بالاہوکر وطن عزیز کے وسیع تر مفاد کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی موجودگی کو ماضی کی صورتحال کے تناظر میں بعض حلقے معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔ قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) اور مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) جیسے ادارے ہمارےوفاقی جمہوری نظام کے ایسے اجزاہیں جنہیں ملک کے وفاقی کردار اور یونٹوں کے مفادات کا محافظ کہا جاسکتا ہے۔ ملکی مالیاتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ادارے کی حیثیت سے این ای سی کے ذریعے ایسے فیصلے سامنے آتے ہیں جنہیں قومی امنگوں کا عکس کہا جاسکتا ہے۔ کئی برسوں سے جاری معاشی بدحالی کی صورت حال، غیر ملکی قرضوں کے بڑھتے حجم اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط کا منظرنامہ بلاشبہ ایسی آزمائشی کیفیت ہے جس سے نمٹنے کے لئے اجتماعی جدوجہد نہ صرف جاری ہے بلکہ بین الاقوامی ایجنسیوں کی ریٹنگ اور مالیاتی اداروں کی رپورٹوں کی صورت میں اس کے مثبت نتائج و اثرات کی نشاندہی بھی ہو رہی ہے۔ بدھ کے روز منعقدہ اجلاس مئی کے پہلے عشرے میں وطن عزیز کے خلاف بھرپور منصوبہ بندی سے کی گئی بھارتی جنگی مہم جوئی کے تناظر میں خاص اہمیت کا حامل تھا۔ پاکستان مذکورہ حملے میں نہ صرف محفوظ و فتحیاب رہا بلکہ دشمن کو جارحیت کی ایسی سزا دی گئی جس کے زخم بھرنے میں خاصا وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن اس نوع کے معرکوں کی کامیابی کے بعد زخم خوردہ دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کی تدابیر پہلے سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو جاتی ہیں۔ بدھ کے روز کئے گئے کئی فیصلوں کی صورت میں ایک روز قبل پشاور میں وزیراعظم شہباز شریف کے جرگے سے خطاب، آبی وسائل سے متعلق اجلاس اور صحافیوں سے گفتگو کی صورت میں نمایاں اس تاثر کی اصابت سامنے آئی کہ درپیش حالات اہم فیصلوں کی ضرورت اجاگر کر رہے ہیں۔ این ای سی نے 4جون کو منظور کردہ ایک ہزار ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں جہاں 4.2فیصد جی ڈی پی گروتھ، برآمدات کا ہدف 35ارب ڈالر کرنے کی منظوری دی وہاں 25ء کے بجٹ میں 20ارب روپے کی کٹوتی کرتے ہوئے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے لئے 20ارب، دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 35ارب، مہمند ڈیم کیلئے 35.7ارب روپے مختص کر دیئے گئے۔ یہ فیصلہ وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے اسے ملکی ضرورت کے علاوہ دفاعی اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل کہنا درست ہوگا۔ اجلاس میں 13ویں پنچ سالہ منصوبے (2024-2029ء) اور اڑان پاکستان فریم ورک کی بھی منظوری دی گئی ۔ این ای سی کو بتایا گیا کہ 13واںپنچ سالہ منصوبہ اور اڑان پاکستان باہمی طور پر ہم آہنگ ہیں۔پلاننگ کمیشن ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے وزارت آبی وسائل کے لئے 147ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اجلاس نے جو فیصلے کئے ان پر بہت اچھی طرح غور و خوض کیا گیا اور جو رقوم مختص کی گئیں وہ سب ہی ملک، صوبوں، عوامی مفادات اور ترقی و خوشحالی کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ ان کی تفصیلات سے قطع نظر یہ بات خاص اہمیت کی حامل ہے کہ وفاق اور صوبوں میں مشاورت کا سلسلہ جاری رہے اور تمام معاملات میں ہم آہنگی کا عنصر نمایاں ہو۔ وزیراعظم نے درست کہا کہ قومی امور پر اتفاق رائے پاکستان کے روشن مستقبل کا ضامن ہے۔

تازہ ترین