• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صورتحال…الطاف حسن قریشی
یوں تو ہمارے داخلی اور خارجی چیلنجز ایک سے ایک ہوشربا ہیں، مگر بھارت کی موجودہ اَندھی قیادت نے جو روش اختیار کی ہے، اُس میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی بہت زیادہ فساد بپا کر سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح6اور 7مئی کی درمیانی رات پاکستان سے چھیڑچھاڑ اُس کیلئے عبرت کا سامان بن گئی ہے، اِسی طرح پاکستان کا پانی بند کرنے کی کوشش اُس کے پورے وجود کو ہلا کے رکھ دے گی۔ آپ اِسے میری خوش قسمتی سمجھیے کہ مَیں اُن تمام عوامل کا عینی شاہد ہوں جنہوں نے سندھ طاس معاہدے کی صورت گری کی تھی جس میں امریکہ اور عالمی بینک نے برِصغیر کو تباہ کن محاذآرائی سے محفوظ رکھنے کیلئے کلیدی کردار اَدا کیا تھا۔
قدرت کا کمال دیکھیے کہ اُس نے مجھ ایسے ناچیز سے آگے چل کر بہت بڑا کام لیا۔ جب ہم سرسہ سے ہجرت کر کے پاکستان آئے، تو میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا حصول تھا۔ میرے بڑے بھائی گُل حسن محکمہ انہار میں ملازم تھے اور پاکستان کا آپشن دینے کی وجہ سے اُن کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز سگنیلرشپ سے کیا تھا۔ مَیں نے اُن سے ٹیلی گرافی کا ہنر سیکھا اور میٹرک کی سند کے مطابق مجھے سولہ برس کی عمر میں سگنیلر کی ملازمت مل گئی۔ محکمہ انہار میں دریاؤں، نہروں اور رَاجباہوں میں پانی کے ریگولیشن کا پورا اِنتظام سگنیلر کی فراہم کردہ معلومات پر چلتا تھا۔ اِس مقصد کیلئے اُس نے اپنا ٹیلی گراف سسٹم قائم کر رکھا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں تارگھر موجود تھے جو نہروں اور رَاجباہوں کی گزرگاہوں پر واقع تھے۔ میری پہلی پوسٹنگ لاہور اَور دُوسری مرالہ ہیڈورکس ہوئی۔ مَیں بس پر سمبڑیال اور وَہاں سے ٹرالی کے ذریعے تین گھنٹوں میں مرالہ ہیڈورکس پہنچا۔ اُس علاقے میں جموں سے مہاجرین بڑی تعداد میں پھیلے ہوئے تھے جن کے قتلِ عام کا مہاراجہ نے حکم دے دیا تھا۔
پنجاب اِس طرح دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا تھا کہ پاکستان میں بہنے والی زیادہ تر نہروں کے ہیڈورکس مشرقی پنجاب میں رہ گئے تھے۔ سرحدی کمیشن نے فیروزپور اَور گورداسپور کے اضلاع بھی بھارت کی تحویل میں دے ڈالے تھے جن میں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی۔ اِس بددیانتی کا فائدہ سب سے زیادہ بھارت کو ہوا جسے کشمیر تک پہنچنے کا راستہ بھی مل گیا اور پاکستان کے پانی کو کنٹرول کرنے کی سبیل بھی نکل آئی۔ میرے مشاہدے میں آئے دن یہ بات آ رہی تھی کہ جب پاکستان کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی، تو بھارت پانی روک لیتا اور جب پانی وافر ہوتا، تو مشرقی پنجاب کی حکومت دریاؤں اور نہروں میں پانی چھوڑ دیتی جس کے باعث سیلاب آ جاتا اور فصلیں برباد ہو جاتیں۔ ابتدائی برسوں میں میاں ممتاز دولتانہ مغربی پنجاب کابینہ میں وزیرِ آبپاشی تھے۔ اُنہوں نے مشرقی پنجاب کی حکومت سے رابطہ قائم کیا اور کمال دانش مندی سے اُسے ایک معاہدے پر رضامند کر لیا۔ اُس معاہدے پر دستخط کرنےکیلئے دولتانہ صاحب چندی گڑھ گئے۔ اُس میں یہ طے پایا تھا کہ پانی کی فراہمی باہمی رضامندی سے کی جائے گی اور برسات میں پانی چھوڑنے کی اطلاع پہلے دی جائے گی۔ اِس معاہدے پر کچھ عرصے تک عمل ہوتا رہا، مگر بھارت کے ارادے کچھ اور تھے۔ وہ پاکستان کا پانی یکسر بند کر دینا اور اُس کے زرخیز علاقوں کو بنجر بنا دینا چاہتا تھا۔ اِس اہم ترین مسئلے پر کئی بار مذاکرات ہوئے، مگر بھارت اپنی چالبازیوں سے باز نہ آیا جسکے سبب پاکستان کی زراعت اور معیشت بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ یہی وہ دِن تھے جب میرا تبادلہ اریگیشن سیکرٹریٹ ہو گیا جو پرانی انارکلی لاہور میں واقع ہے۔ مَیں نے ۱۹۵۷ء میں ایم اے پولیٹکل سائنس میں داخلہ لے لیا۔ یہ بات سیکرٹریٹ میں پھیل گئی جس کے باعث محکمے کے اعلیٰ افسران مجھ سے بڑی شفقت سے پیش آنے لگے۔ اُن میں بعض اتنے قریب آئے کہ مجھے اپنے مشوروں میں شامل کرنے لگے۔
مَیں ایم اے فائنل میں تھا کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کر دیا اور فروری 1959ء میں ہونے والے قومی انتخابات غیرمعیّنہ مدت کیلئے ملتوی کر دیے گئے۔ جنرل ایوب خان 1959ء میں ازخود فیلڈمارشل بن بیٹھے اور جنرل موسیٰ کو آرمی کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ اِس کے ساتھ ہی ایوب خان نے اُن سنگین مسائل کی طرف پوری توجہ دی جو پاکستان کی سالمیت کیلئے سوہانِ روح بنے ہوئے تھے۔ اُن میں سے سب سے سنگین مسئلہ بھارت کے ساتھ پانی کا تنازع مستقل طور پر طے کرنا تھا۔ اریگیشن سیکرٹریٹ اِس کام کیلئے منتخب کیا گیا۔ ایوب خان نے امریکہ کے ذریعے تمام اہم اداروں بالخصوص عالمی بینک سے رابطہ قائم کیا، پھر ہمارے سیکرٹریٹ میں ماہرین کی ٹیمیں تحقیقی کام بڑی تندہی سے کرنے لگیں۔ کوئی آٹھ ماہ تک مختلف تجاویز پر پوری سنجیدگی سے غوروخوض ہوتا رہا اور جب ایک مسودے پر اتفاق ہو گیا، تو ایوب خان نے انجینئروں کی کانفرنس طلب کی۔ مندوبین میں میرے جاننے والوں کی خاصی تعداد موجود تھی جن سے اِس اِیشو پر تبادلۂ خیال ہوتا رہتا تھا۔ صدر اَیوب خان نے اُن کے سامنے مسودہ پیش کیا اور اُن مذاکرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جو بین الاقوامی اداروں اور طاقتوں سے ہوتے رہے تھے۔ اُس کانفرنس میں ایک صاحب نے کھڑے ہو کر کہا فیلڈمارشل صاحب! آپ نے پاکستان کے تین دریا بھارت کے حوالے کر دینے پر اتفاق کر لیا ہے، آپ کو اَیسا کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ فیلڈمارشل نے یہ تنقید خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کی اور اَپنے موقف کے حق میں دلائل دیے۔ تمام حاضرین نے مسودے سے اتفاق کیا۔ اِس کے بعد بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو معاہدے پر دستخط کرنےکیلئے کراچی آئے۔ یہ اِس بات کا بیّن ثبوت تھا کہ پاکستان کے موقف کو عالمی حمایت حاصل ہے۔ 1960ء میں واپڈا کے قیام کی تمام تر تیاریاں اریگیشن سیکرٹریٹ ہی میں ہوئیں اور جب سندھ طاس معاہدے کا پورا سٹرکچر کھڑا ہو گیا، تو مَیں نے محکمے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا کہ گوہرِ مقصود مل گیا تھا اور قدرت مجھے اور میرے برادرِ مکرم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کو صحافت کی ذمےداریاں سنبھالنے کیلئے آواز دے رہی تھی۔
تازہ ترین