حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور مختصر جنگ نے اس پورے خطّے میں پاکستان کی اہمیت کے بارے میں دوررس نتائج مرتب کیےہیں ۔ 10؍مئی سے پہلے کے پاکستان اور 10؍مئی کے بعد کے پاکستان نے ایک ہی جست میں عشروں کا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ اس پورے بحران کے دوران ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے جس تحمل اور سوجھ بوجھ سے معاملات حل کیے ہیں ۔ اس کی نظیر ہماری حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ خاص طور پر 2019ء میں بالا کوٹ پر ہندوستانی ہوائی حملے کے بعد بھارتی جہاز مار گرانے اور بھارتی پائلٹ ابھینندن کی گرفتاری کے باوجود اس وقت کی ’’ ایک ہی صفحے ‘‘ کی گورنمنٹ کی بوکھلاہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی۔ چونکہ اس وقت کی حکومت کی سیاسی حکمتِ عملی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسی حکومت کی کیا سیاسی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے جس کا سربراہ اپوزیشن کے سیاسی مخالفین کے ساتھ بات چیت کرنا تو کیا ہاتھ ملانا بھی پسند نہ کرتا ہو اور جو تکبّر کے گھوڑے پر اس طرح سوار ہو کہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی خوفناک کارروائی کے بعد بھی اپوزیشن کے ساتھ اجلاس میں شریک ہونے کی بجائے آرمی چیف کو کہے کہ وہ اسکی جگہ ان لوگوں یعنی اپوزیشن والوں سے مل لے کیونکہ وہ ’’ کمتر لوگ‘‘ اس کے شایانِ شان نہیں ۔ اس نے نہ صرف اندرونِ ملک یک جہتی پیدا کرنے کی بجائے انتشار کو ہوا دی بلکہ انڈیا کے فالس فلیگ آپریشن کے حوالے سے بھارتی پروپیگنڈے کا کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ جسکی وجہ سے نہ صرف عالمی رائے عامہ نے مودی حکومت کے موقف کو تسلیم کر لیا بلکہ پاکستانی حکومت پر اتنا دبائو بڑھا دیا کہ اسے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو بھی واپس کرنا پڑا یوں ہمارے ایئر فورس کے ان شاہینوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہوئی جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر بھارتی طیارے مار گرائے تھے بلکہ اس نقصان کے باوجود مودی حکومت یہ تاثر دینے میں کامیاب رہی کہ انہوں نے پاکستان کے اندر گھُس کر مارا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مودی حکومت نے ابھینندن کی اس پٹائی کو بھی اسکی بہادری گردانتے ہوئے نہ صرف اسے میڈل سے نوازا بلکہ اپنی اس’’ کارکردگی‘‘کو الیکشن جیتنے کیلئے بھی استعمال کیا۔ یہ انڈیا کی فتح نہیں تھی بلکہ عمران حکومت کی سفارت کاری کے محاذ پر نہایت بری کارکردگی تھی۔ کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد عمران کی زندگی کا واحد مقصد اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کرنا تھا۔ جیسا کہ سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے عمران خان کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے بتا یا تھا کہ مجھے عمران خان نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو میں نے کہا کہ ’ ’ معیشت ‘‘ لیکن عمران خان نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’’ معیشت نہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن ہے ۔‘‘ یہ اس شخص کا جواب تھا جو سیاست ، تاریخ ، جغرافیہ ، مذہب غرض زندگی کے ہر شعبے میں خود کو عقلِ کل سمجھتا ہے۔ اس کا دوست ممالک چین ، سعودی عرب اور ترکیہ کے ساتھ جو رویہ رہا۔ اس کی وجہ سے ان میں سے کوئی ملک کھل کر ہمارے ساتھ نہ آیا۔ لیکن اس مرتبہ پاکستانی حکومت نے مودی کے جارحانہ بیانات کا نہ صرف مدّلل جواب دیا بلکہ کسی بھی غیر جانبدار تحقیقات کیلئے خود کو پیش کیا۔ پاکستان کے اس اصولی موقف کی نہ صرف دنیا کے اکثر ممالک نے حمایت کی بلکہ امریکہ اور روس جیسے ملکوں نے بھی پہلے کی طرح ہندوستانی اقدامات کی حمایت نہ کی جبکہ چین، ترکیہ اور آذربائیجان نے عملی طور پر جس طرح پاکستان کا ساتھ دیا اسکی مثال نہیں ملتی ۔ یہ سوچ کر ہی بندہ پریشان ہو جاتا ہے کہ اگر اس مرتبہ بھی ’’ مرشد‘‘ کی حکومت ہوتی تو ہمارا کیا حال ہوتا۔ پہلے تو مودی کو بالا کوٹ کشیدگی نے نقصان کی بجائے فائدہ پہنچایا تھا۔ لیکن اس مرتبہ مودی اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ کیونکہ پاکستان کی موثر ترین جوابی کارروائی اور شاندار سفارت کاری کی بدولت مودی حکومت اپنی اپوزیشن اور عوام کے علاوہ ، عالمی تنقید اور محاسبے کی زد میں بھی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جی سیون ممالک کے اجلاس میں پہلی مرتبہ مودی کو مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ بات بھی انتہائی افسوس ناک ہے کہ عمران خان کی طرح بھارت نے بھی آئی ایم ایف سے پاکستان کا قرضہ روکنے اور اسے دیوالیہ کرنے کی کوششیں کیں۔ جو کامیاب نہ ہوسکیں ۔ 10مئی کے بعد بیرونی ممالک کے دوروں کے شوقین مودی نے بیرونِ ملک ایک دورہ بھی نہیں کیا لیکن پاکستان کے وزیرِ اعظم اور بلاول بھٹو زرداری سمیت کئی لیڈر پاکستانی موقف کو بیرونِ ملک کا میابی سے بیان کر رہے ہیں۔ یہ پاکستانی موقف کی کامیابی ہے کہ دھیرے دھیرے انڈین عسکری اور فوجی قیادت اپنے نقصانات کا اعتراف بھی کرنے لگی ۔ یقیناََ 10مئی نے پاکستان کے اندرونی و بیرونی دوستوں اور دشمنوں کے چہروں سے نقاب ہٹا دئیے ہیں۔ پاکستان کے عوام 9مئی اور 10مئی کے درمیان فرق کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
آج کا شعر
ہیں کن چہروں سے پردے جانؔ اٹھتے جا رہے
سرِ مقتل میں کس کس سے ملایا جا رہا ہوں