• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

( گزشتہ سے پیوستہ)

پاکستان افریقہ ایجوکیشن فورم میں بھی بہت کام کیا جا سکتا ہے اور اس راستے سے افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری آ سکتی ہے، اس مقصد کیلئے درج ذیل پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے۔

1۔ پاکستانی یونیورسٹیوں میں افریقی طلباء کو ایک ہزار مکمل فنڈڈ اسکالرشپس فراہم کی جائیں۔

2۔ پاکستانی اداروں میں دس ہزار افریقی طلباء کا داخلہ یقینی بنایا جائے۔

3۔ افریقی ممالک میں پاکستانی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھولے جائیں، ان اقدامات سے افریقی ممالک میں بسنے والوں کے ساتھ ہمارے تعلقات چند ہی برسوں میں نیا رخ اختیار کر لیں گے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ اس کا نفاذ کیسے ہو؟

1۔ اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کی معروف یونیورسٹیوں اور افریقی اداروں کے ساتھ شراکت داری کا پروگرام ترتیب دئے۔

2۔ میڈیکل، انجینئرنگ، آئی ٹی اور زراعت میں پروگرام پیش کئے جائیں۔

3۔ فیکلٹی کے تبادلے اور مشترکہ تحقیقی اقدامات کو آسان بنایا جائے۔ اس طرح عوامی سطح پر رابطے بڑھیں گے، طویل مدتی تعلیمی اور تحقیقی شراکتیں قائم ہوں گی، افریقی ممالک میں ہمارا اثر و رسوخ بڑھے گا۔

پاکستان افریقہ ہیلتھ الائنس کے تحت بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ مثلاً افریقی مریضوں کو علاج کیلئے راغب کرنے کیلئے 50 معروف پاکستانی ہسپتالوں کا انتخاب کیا جائے، افریقی ممالک میں پاکستانی ملکیتی ہسپتالوں اور تشخیصی مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے، اسی طرح افریقی ممالک کو صحت کے شعبے میں پیشہ ورانہ افراد کو تربیت اور تعاون فراہم کیا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے اعلیٰ ہسپتالوں شوکت خانم، آغا خان، ایس آئی یو ٹی، لیاقت نیشنل، جی آئی ایمز، پنجاب ٹرانسپلانٹ اور الشفاء کے ساتھ معاہدے کیے جائیں۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ پاکستان کیلئے طبی سیاحت کی آمدنی میں اضافہ ہو گا، افریقی ممالک میں صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ دو طرفہ تعلقات بھی مضبوط ہوں گے، پورے براعظم افریقہ میں سستی اور معیاری صحت کی دیکھ بھال کے سلسلے میں پاکستان کو ایک رہنما اور بڑا ملک تصور کیا جائے گا۔

مذکورہ بالا اقدامات سے یقیناً سفارتی اور معاشی فوائد ہوں گے۔

1۔ بر اعظم افریقہ کی 3.4ٹریلین ڈالر کی معیشت میں پاکستان کے تجارتی حصہ میں اضافہ ہو گا۔

2۔ اقتصادی اور تعلیمی تعلقات کے ذریعے سفارتی مراسم بہتر ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت چین، ترکی، ہندوستان اور امریکہ سمیت کئی ممالک افریقی ملکوں کا رخ کر چکے ہیں۔

افریقی ممالک کو بہت سی ایسی چیزیں فراہم کی جا سکتی ہیں، جو ہمارے ہاں گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ڈسکہ، وزیر آباد اور گجرات میں انتہائی سستے داموں تیار ہوتی ہیں۔ بہت سے افریقی ملکوں کی زمینوں کو آباد کرنے کیلئے جن زرعی آلات کی ضرورت ہے، ہمارے ہاں وہ ڈسکہ میں تیار ہوتے ہیں، اگر ہم ٹریکٹرز اور موٹر بائیکس افریقی ملکوں کو برآمد کرنا شروع کر دیں تو پاکستان کی تجارت میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ چمڑے سے وابستہ چیزوں کی تیاری کے سلسلے میں قصور کے بہت سے لوگ افریقہ میں کام دکھا سکتے ہیں۔ افریقی ملکوں میں دودھ اور گوشت بہت ہے مگر انہیں محفوظ کرنے کیلئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح فیصل آباد کا ٹیکسٹائل سیکٹر افریقی ملکوں میں کپڑا فراہم کر کے بڑے پیمانے پر تجارت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ بر اعظم افریقہ میں چاول بہت کھایا جاتا ہے، پاکستان بڑے پیمانے پر چاول برآمد کر کے اپنی معیشت کو بہتر کر سکتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار سیاحتی مقامات ہیں، جب افریقی لوگوں سے رابطہ بڑھے گا تو یقیناً وہ سیاحت کیلئے پاکستان کا رخ کریں گے۔ یہ وہ منصوبہ بندی ہے جو دفتر خارجہ سے منظوری کیلئے احمد علی سروہی نے پیش کی، انہوں نے کہا کہ PAEF،PAEC اور PAHA وزارتِ خارجہ کی نگرانی میں ہوں گے، انہوں نے دو بنیادی تجاویز بھی سامنے رکھیں۔

1۔ ابتدائی فنڈز مختص کریں اور پاکستانی اسٹیک ہولڈرز کو شامل کریں۔

2۔ ان تمام اقدامات کا اعلان کرنے کیلئے ایک ہائی پروفائل پاکستان-افریقہ سمٹ کا انعقاد کریں۔ یہ تجاویز پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہداف سے ہم آہنگ ہیں اور پاکستان کے افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کیلئے تبدیلی کا فریم ورک پیش کرتی ہیں۔ افریقہ وہ واحد بر اعظم ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے، اس لئے ہمیں افریقی ممالک کے ساتھ مراسم میں بہت آسانیاں رہیں گی۔ بقول اقبال

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر

چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

تازہ ترین